بھپرا ہجوم ۔۔۔ راحیلہ بتول

جولائی کی بے رحم اور جھلسا دینے والی گرمی، شہر کے عین بیچوں بیچ، کالے سیاہ رنگ کے لباس میں ملبوس یہ بے ہنگم ہجوم- رسیاں توڑتے، رکاوٹیں پھلانگتے، ایک دوسرے پہ چڑھتے، دھکا دیتے، ٹکریں مارتے، لڑائی کرتے اور گالیاں بکتے۔
نا جانے یہ کیسا بھپرا ہجوم ہے ؟
ارے! یہ سب تو لبیک یا حسین اور سلام یا حسین کی صدائیں بھی بلند کر رہے ہیں۔تو کہی، یہ لوگ عزاداران مولا حسین تو نہیں!
مگر نہ تو سوگواران امام اور عزاداروں کی پہلے یہ حالت ہوتی تھی اور نہ ہی جلوس عزا ایسا ہوتا تھا۔ با عرض معزرت! جسمانی مشققت کے لحاظ سے اب یہ تو میراتھن کی کوئی نئی شکل دکھ رہی ہے جسمیں نظم و ضبط کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔ اور عزاداری!وہ تو بس برائے نام۔
پھر کچھ اسی طرح کا ملتا جلتا منظر شب عاشور کو علمدار روڑ میں دیکھنے کو ملا جہاں مردوں، عورتوں اور بچوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر، رکشوں اور موٹرسائیکلوں سے بچتا بچاتا ، قہقہے مارتا-اوپر سے نیچے تو کبھی نیچے سے اوپر کی طرف رواں دواں اور پھر ماشاءاللہ ماہ محرم کی برکت سے قدم قدم پہ شربت، پانی، چائے ،دودھ اور سوپ کی سبیلیں۔
جن سے فیضیاب ہونے کے لیے دونوں زنانہ اور مردانہ عقیدت مند ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھے۔ اب اس کوشش میں خواہ کسی کی جان جائے یا عزت، یہ اس کا نصیب۔ الغرض نفسا نفسی اور گہما گہمی کا عالم ایسا گویا سوگ کی نہیں بلکہ کوئی چاند رات ہو۔بہ صد افسوس، مقصد حسینی اور کردار زینبی جیسے الفاظ بس منبر کی نمود و نمائش اور ذاکر کے جوش خطابت کی زیبائش کے لیے ہی رہ گئے ہے۔
خیرآئینے میں اپنا شرمناک عکس دیکھتے ساتھ ہی ماضی کے بند دریچے خود بخود کھلتے چلے گئےاور سامنے ایک باوقار ، پر عزم اور مستحکم قوم کھڑی نظر آئی جس کی عظمت، استقامت اور جرات کی لوگ مثالیں دیتے تھکتے نہیں تھے۔ یہ وہی قوم تھی جس کی با مقصد، منظم اور سنجیدہ عزاداری ہر زمانے کے یزید کو للکارنے کے لیے کافی تھی۔ روز عاشور کا جلوس اپنی پوری آب وتاب پہ، بیک وقت نا صرف غم اور سوگ کامظہرہوتا تھا بلکہ حسینیت، اخوت اور تنظیم میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔
بالکل اسی طرح شب عاشور کی عزاداری بھی بہت منظم اور پر کیف ہوا کرتی تھی۔کسی بھی نا خوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیےعلمدار روڑ کو رسیوں کی مدد سے مردانہ اور زنانہ دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے ہر چھوٹی بڑی ٹریفک کو متبادل راستوں پر موڑ دیا جاتا تھا۔
یوں سڑک کی تقسیم بندی سے وہ سبیلیں جن پر آج کل مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ کھڑا ہونے پر اعتراض کیا جا رہا ہے وہ بھی نہیں ہوتی تھیں کیونکہ تب پھر سبیلیں بھی مخصوص جنس کے لیے مختص ہو جایا کرتی تھی۔ المختصر،اس طرح کے دیگر اوراقدامات سے بالخصوص شب عاشور اوربالعموم عزاداری کی فضیلت اور تقدس کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی تاکہ کربلا من و عن آگے نسلوں تک منتقل کی جا سکے۔
لب لباب یہ کہ بحثییت پیروکار امام حسین ہمارا اجتماعی رویہ ایک زوال زدہ قوم کی نشانی ہے۔بلاشبہ واقعہ کربلا ہماراقومی اور مذہبی ورثہ ہے جس پہ ہم سب فخر بھی کرتے ہیں اور زورزور سے ماتم بھی۔ مگر کربلا کو گریہ و ماتم اور نذر ونیاز تک محدود کرنا سراسرغلط ہے۔ ایک خاص گروہ کے لیے یہ سوا دو مہینے تو کاروبار کے بن ہی چکے ہیں اور وہ سب اپنی اپنی دکانیں حسب توفیق چمکا بھی رہے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ کربلا کے فلسفے کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر اپنی عملی زندگیوں میں سدھار لایا جائے۔
اس مقصد کے لیےعلمائے کرام سے گزارش ہے کہ آسٹریلین امیگریشن سے ذرا توجہ ہٹا کرواقعہ کربلا کے پس پردہ پوشیدہ حقائق کو نئی نسل کے لئے آشکار کر کے ان تمام تاریخی واقعات پر روشنی ڈالیں جودرحقیقت کربلا بننے کا باعث بنے ہیں۔ تاکہ نوجوان نسل امام حسین اور بی بی زینب کی مظلومیت سے اچھی طرح سے آشنا ہوکے انکی قربانی کوگراں قدر اور انمول جانے۔ پر افسوس کہ کئی صدیاں گزرنے کےباوجود بھی اس عظیم قربانی کو بریانی ،شیر شربت اور شلے گوشتی تک محدود کر دیا گیا ہے۔
اورسب سے مہم یہ احساس کہ منبر کا صحیح استعمال بروئے کارلانا اب ہم سب پر لازم و ملزوم ھو چکا ہے۔مجالس میں برسوں پرانے موضوعات جیسا کہ عورتوں کا حجاب اورپردے پر بحث کرنے کے بجائے نوجوانوں کو اس عزاداری کے پس منظر اور نظریے کے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ چونچلے بازی کی جگہ با مقصداور مخلص عزاداری کو فروغ مل سکے وگرنہ یہ جسمانی ورزش جلد ہی تھکن کا باعث بن کرمعدوم ہو جائے گی اور اسی طرح کے کئی اورمحرم ماضی کی خاک و دھول تلے دبتے چلے جائیں گے۔
راحیلہ بتول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *