مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا ضروری ہے ۔۔۔ ناظر یوسفی

       ہم اکثر ملا مخالفت میں یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہیے۔  لیکن ہم میں اکثر اس بنیادی تصور سے بے خبر ہیں،  کہ دین جب سیاست میں مداخلت کرکے اقتدار میں آتا ہے تو کس طرح جمہوریت،  برابری اور انسانی حقوق کو پامال کرتا ہے۔

       ادیان کے نمائندے،  یعنی:  ملا،  پادری،  پجاری اور پنڈت جب سیاسی طاقت حاصل کر جاتے ہیں،  تو عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کر کے بنیادی طور پر عدل،  برابری اور انفرادی آزادیوں پر قدغن لگا دیتے ہیں۔  وہ معاشرتی نظام جہاں دین و سیاست باہم گڈ مڈ ہوجاتے ہیں،  وہاں مختلف عقائد کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات جنم لیتے ہیں۔  کیونکہ برسر اقتدار مذہبی طبقہ اپنے فرقے کے فروعی و شرعی قوانین کو ریاستی مشنری کے ذریعے دوسرے عقائد رکھنے والے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  جس کے نتیجے میں معاشرے میں مختلف فرقوں کے درمیان شدید مذہبی منافرت اور تنگ نظری جنم لیتی ہے۔

       دینی اور متمدن قوانین میں فرق یہ ہے کہ دینی قوانین عمودی سمت میں سفر کرتے ہیں۔  یعنی یہ دینی قوانین اوپر سے زمین پر نازل ہوتے ہیں،  جو کہ چند ہزار سال پرانے اور ناقابل تغیر بھی ہوتے ہیں۔  جیسا کہ:  کچھ بھگوان یا خدا نے انسانوں کو جن جن احکامات کے ماننے پر من و عن پابند کیا ہے۔  اسی طرح ان مذہبی قوانین اور تعلیمات کو ریاستی اداروں کے ذریعے عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔  جس کی عصر حاضر میں تھیوکریٹک ایران اور افغانستان کی ریاستیں اچھی مثالیں ہیں،  جہاں پر ایک طرف شیعہ اور دوسری طرف ایک سنی حنفی فرقہ اپنی بھیانک ترین شکلوں میں آج بھی موجود ہیں۔  جنہوں نے اپنے عوام کے تمام معاشرتی حقوق کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔

       دوسری طرف جب ہم متمدن اور ایک غیر مذہبی ریاست کا جائزہ لیتے ہیں،  تو اس میں قوانین افقی شکل میں سفر کرتے ہیں۔  یہ عصر حاضر کے مطابق قانون ساز اداروں کے ذریعے معاشرتی مسائل کو پرکھنے کے بعد موجودہ حالات کے مطابق قوانین بناتے ہیں۔  جن کے ذریعے عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر کسی مذہبی تعصب و تنگ نظری کے تمام شہریوں کو ان کے بنیادی شہری حقوق کے تحت تمام سہولیات فراہم کیے جاتے ہیں۔

       متمدن پالیسیوں کے افقی حالت میں سفر کرنے کا مطلب ہے،  کہ انسان معاشرے کے بنیادی سیاسی و معاشرتی مسائل کے حل کے لئے بجائے کہ آسمان سے مذہبی قوانین کی طرح اپنے اوپر لاگو کرے،  بلکہ وہ خود علمی اور منطقی دلائل کی بنیاد پر حاصل کیے گئے نتائج پر ماخوذ عصری تقاضوں کو مدنظر رکھ کر قوانین بنا کر انہیں معاشرے پر لاگو کرنے اور ان کے فوائد سے استفادہ کرتے ہیں۔

       افقی سمت میں سفر کرنے والی سیاست دینی سیاست کے عمودی سیاست کی سمت سفر کرنے والے غیر ضروری اثرات سے ماورا تشکیل دی گئی پالیسیز اور فیصلے عوامی مشکلات و مسائل کے سب سے بہترین حل ہوتے ہیں۔  اس طرز عمل سے بننے والے قوانین اور علمی تحقیقات معاشرتی ترقی اور نوآوری کو بڑھاتے ہیں۔

       جمہوری اصولوں کے تحت دین کو سیاست سے الگ رکھنے کا بنیادی ہنر یہ ہے کہ یہ عمل اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ حکومت شہریوں کی مشترکہ بھلائی کی خاطر بغیر کسی مذہبی اثر و نفوذ اور ان کے دینی تعلقات کے،  تمام آبادی(جو مختلف عقائد کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے)  کو یکساں قوانین دیتی ہے،  جن کی بدولت تمام معاشرہ یکساں فلاح حاصل کرتا ہے۔  یہ صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ حکومت و ریاست دینی مداخلت سے بالکل پاک اور غیرجانبدار ہوں۔

       پس نوشت:  ملا اور مذہبی نمائندوں کو سیاست سے الگ رکھنا سماجی ہم آہنگی، انصاف اور ہر فرد کی بہتری میں نہایت کارآمد عمل و دستور ہے۔  دور جانے کی ضرورت نہیں،  ہمارے سامنے مغربی ممالک اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

ناظر یوسفی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *