شیعہ اسماعیلی فرقہ کے 49 ویں امام، شہزادہ کریم آغا خان 4 فروری 2025ء کو پرتگال کے شہر لزبن میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 88 برس تھی اور وہ 68 سال تک امامت کے فرائض بہترین طریقے سے انجام دیتے رہے۔ اپنی دانشمندی، بردباری، بین المذاہب ہماہنگی اور بلاتفریق بے مثال انسانی خدمات کے حوالے سے وہ ایک بین الاقوامی شخصیت کے حامل تھے۔ چنانچہ پوری دنیا میں ان کو ایک سربراہ مملکت کا پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ اسی نسبت سے دنیا بھر کی اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات نے ان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا جس کی توقع بھی کی جارہی تھی۔ لیکن میرے لئے یہ بات قابل اطمینان ہےکہ دیگر اسلامی مکاتب فکر بشمول فقہ حنفی اور شیعہ اثناء عشری سے تعلق رکھنے والےدینی عالموں کی ایک مناسب تعداد نے بھی شہزادہ کریم آغا خان کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرکے ٹیبو شکنی کی ایک اچھی روایت کی ابتداء کی ہے۔ پاکستان کی حد تک علامہ آغا راحت حسین الحسینی، علامہ کرامت حسین نجفی، شیخ مرزاعلی وغیرہ نے بڑے وفود کی صورت میں گلگت بلتستان میں اسماعیلی جماعت خانہ جاکر مرحوم امام کی وفات پرتعزیت کی اور ان کے فلاحی کاموں اور انسان دوست عملی قدامات کی تعریفیں کیں۔لیکن میرے لئے سب سے زیادہ اطمینان کی بات آیت اللہ العظمی واعظ زادہ بہسودی کا پیغام ہے جس میں موصوف نے شہزادہ کریم آغا خان کے شاندار انسانی فلاحی کاموں پر ان کو خراج عقیدت پیش کرکےان کی وفات پر ان کی فیملی اور پیروکاروں سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ آیت اللہ بہسودی لکھتے ہیں
“اسماعیلی فرقہ، ایک اسلامی فرقہ ہے جو مکتب امامیہ سے وابستہ ہے۔ اس فرقہ کی رہنمائی کرتے ہوئے آپ (شہزادہ کریم آغا خان) نے دنیا کے مختلف خطوں میں شاندار خدمات انجام دی ہیں، بطور خاص پیارے وطن افغانستان میں کئی موسسات (این جی اوز) کے ذریعے عام لوگوں کی بھلائی کے متعدد کام کئے ہیں جوکہ ان کی ذات کی مرہون منت ہے”۔ آگے چل کر آیت اللہ بہسودی نے اسماعیلی فرقہ کے نئے 50 ویں امام، شہزادہ رحیم آغاخان کو امامت کا عہدہ سنبھالنے پر دلی مبارک دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانی فلاحی کاموں کے سلسلے کو جاری و ساری رکھیں گے۔
میری نظر میں آیت العظمی واعظ زادہ بہسودی کا یہ پیغام دوہری اہمیت کا حامل ہے۔ ایک یہ کہ ماضی کے برعکس ایک اسلامی فرقہ کے ایک اہم مذہبی رہنما نے ایک دوسرے اسلامی فرقے کے وجود کو تسلیم کرنے کی جرآت ان حالات میں کی ہے جہاں صدیوں سے ہر فرقہ میں صرف اپنے آپ ہی کو اسلامی اور باقی تمام فرقوں کو غیر اسلامی قرار دینے کی بدعت عام ہے۔ دوسری یہ کہ افغانستان میں ہزارہ قوم کی اچھی خاصی تعداد، فرقہ شیعہ اسماعیلی کے پیروکار ہیں، یعنی وہ نسلی لحاظ سے ہزارہ ہیں، ان کی سرزمین ایک ہے، ان کی زبان ہزارہ گی ہے، تاریخ ،فرہنگ و ثقافت ایک ہونے کے باوجود ماضی قریب تک وہ محض فرقے الگ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دشنمی کی حد تک دور رہے ہیں۔ جہاں تک میری معلومات اور مشاہدات کا تعلق ہے اس میں زیادہ قصور شیعہ اثناء عشری سے تعلق رکھنے والے تنگ نظرمولوی صاحبان کا ہے جو اپنے سوا باقی سبھی کو کافر قرار دیتے ہیں اور اپنے اس جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے تمام حربوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ انہی جھوٹے حربوں کا اثر ہے کہ لوگ ان بیچاروں کو غلاط یا چراغ گلگ قرار دیکر ان سے کوئی تعلق رکھنا تو بہت دور کی بات ہے روزہ مرہ میل جول تک کو حرام تصور کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آیت اللہ العظمی واعظ زادہ بہسودی کے اس اقدام سے ان دونوں اسلامی مکتبہ فکر بطور خاص ہزارہ کے پیروکاروں کے درمیان قربتیں بڑھیں گی۔ یہی توقع سنی ہزارہ افراد سے متعلق بھی ہے۔
- ایک نیک شگون ۔۔۔ اسحاق محمدی - 13/02/2025
- تیمور خانوف کی کتاب( ہزارہ ہا) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 18/01/2025
- ہزارہ پائنیر یا لشکر ہزارہ 1904-1933ء … اسحاق محمدی - 18/12/2024