قیادت کا معیار ۔۔۔ جاوید نادری

سال 2024 کا پہلا مہینہ چناؤ یعنی الیکشن کی گہما گہمی سے بھرپور گزر رہا ہے۔ہر کونے کھدرے سے لیڈر نمودار ہو رہا ہے۔  کوئی کسی پارٹی یا جماعت کی نمائندگی کر رہا ہے تو کوئی آزاد حیثیت میں ولولہ انگیز جذبے سے سرشار اپنے وچار لوگوں تک پہنچانے کو بے قرار ہے۔کارنر میٹنگز اور جلسوں میں حمایت اور وابستگی کے اعلانات ہو رہے ہیں لیڈرز اپنی کرشماتی شخصیت کے پوشیدہ راز ہر کس و ناکس پر افشا کرنے کو بے چین ہیں۔یہ خوشامد کا واحد ایسا عرصہ ہوتا ہے جب کرداروں کا الٹ پیر دیکھنے کو ملتا ہے یعنی لیڈر مانگنے والا بن جاتا ہے اور عوام بخشنے والا اور عطا کرنے والا بن جاتا ہے۔وعدے اور دکھاوے کی اس چہل پہل میں بغیر مزید کوئی تمہید باندھے رہبر یا لیڈر کے بارے میں اپنی کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں جو خالص سائنسی بنیادوں پر منتج ہے۔

نمبر 1 لیڈر کی پہچان:

” ہر کوئی دیکھتا ہے کہ آپ کیا نظر آتے ہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ کیا ہیں”۔ایک لیڈر کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی حیثیت کیا ہے؟ وہ کس مقام یعنی پوزیشن(position) پر کھڑا ہے اور اس کی ذہانت، قابلیت اور بصیرت کتنی ہے؟ لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں وہ چاپلوسوں اور خوش آمدیوں کے بیچ میں گرا تو نہیں ہے کیونکہ خوش آمد لوگ اکثر اس شخص کے گرد جمع ہوتے ہیں جو اپنی خامیوں پر نقطہ چینی برداشت نہیں کرتے اور سچ سننے کی قوت برداشت سے عاری ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں ایک قابل لیڈر کو ہمیشہ صاحب بصیرت ہونا چاہیے اسے گردپیش کی تبدیلیوں اور مستقبل کے اندیشوں کا خاطرخواہ اندازہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے مربوط حکمت عملی سے ہمہ وقت لیس ہونا چاہیے۔ اسے خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور بیرونی اثرات کے باوجود بہتر انتخاب کرنے اور اپنے طرز عمل کا تعین کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

ایک اچھے لیڈر کی نظریں منزل سے زیادہ حاصل منزل پر مرکوز ہوتی ہیں۔ وہ وقت سے آگے کی سوچتا ہے اور کامیابی کی جانب گامزن رہتا ہے وہ مسائل اور ناکامیوں سے مرعوب نہیں ہوتا ہے وہ مضبوط مگر لچکدار ہوتا ہے اس کا ہر قدم تجربات اور نتائج کی روشنی میں اٹھتا ہے۔وہ دوسروں کی صلاحیتوں کو بخوبی جانتا ہے اور اسے نکھارنےکے فن سے بھی واقف ہوتا ہے۔وہ دوسروں کی کامیابیوں کو سراہتا ہے اور ان کی پذیرائی کرتا ہے ایسا کرتے وہ خود کو غیر محفوظ ان سیکیور(insecure) محسوس نہیں کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ محض کسی عہدے پر فائز ہونا کامیابی کی ضمانت نہیں کیونکہ وہ دیرپا نہیں ہوتا ہے۔ ظاہری طاقت کے مقام سے قیادت کرنے کی کوشش ہمیشہ ناکام ہوتی ہے۔ وہ قیادت سے محروم ہونے کے خوف میں مبتلا نہیں رہتا۔ایک لیڈر اپنی انا اور انا کی ضرورتوں کو ایک طرف رکھتا ہے۔

نمبر 2: دیانتداری (انٹیگرٹی):

“برائی کے آگے جھکنے کے بجائے شعوری طور پر اچھا بننے کا انتخاب” دیانت داری سے مراد اخلاقیات اور اخلاقی اصولوں کے ایک مخصوص ضابطے کی پابندی ہے دیانت داری اس وقت منافقت کے سامنے کھڑی رہ سکتی ہے جب وہ مضبوط و مستحکم اخلاقی اصولوں اور اقدار پر قائم ہو ایک مخلص اور دیانت دار فرد بدعنوانی سے پاک ہوتا ہے وہ اپنے اخلاقی اقدار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا جن پر اسے یقین ہوتا ہے وہ شفافیت کے عمل کا علم بردار ہوتا ہے اور اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے بجائے ایسے ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے جہاں خامی اور ناکامی پر سوال اٹھائے جا سکے غلطیوں سے سیکھا جائے اور اپنی غلطیوں کا دفاع کرنے سے گریز کیا جائے۔ وہ خود احتسابی عمل کے لیے ہمہ وقت اپنے آپ کو تیار رکھتا ہے۔وہ دوسرے لوگوں کو اہمیت دیتا ہے اور ان کے مشوروں کو بغور سنتا اور ان کا احترام کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے وہ ایسے ماحول کو فروغ دیتا ہے جہاں اپنے عہد و پیمان پر قائم رہا جائے۔ عہد پر قائم رہنے کا زیادہ امکان اس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے لوگوں کے لیے بھی اہم ہے،اور اگر ہم ناکام ہو جاتے ہیں تو دوسرے لوگوں کی فلاح و بہبود خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

نمبر 3 منصوبہ سازی:

ایک قابل لیڈر کو ایک بہترین منصوبہ ساز ہونا چاہیے اسے مضبوط عزم اور قوت ارادی کا حامل ہونا چاہیے اس کے پاس اپنے عوام کے لیے قابل عمل اور حقیقت پسندانہ منصوبے (پلان) موجود ہونے چاہیے اسے ایسے ماہر افراد کو یکجا کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ ائے جو ان منصوبوں کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہوں۔ اسے لوگوں کی فلاح و بہبود کو خطرے میں ڈالے بغیر مستقبل کی منصوبہ سازی میں نوجوانوں کی بھرپور شراکت داری کا ہنر آتا ہو۔ اسے معاشرے کے مختلف اعضاء کے لیے اہداف کا تعین کرنا آتا ہو ۔ اسے یہ باور ہونا چاہیے کہ معاشرے میں معمولی تبدیلیاں بھی درست سمت اور بہتر مستقبل کی جانب لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔اسے ناکامی کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔

نمبر 4: ادارے/جماعت کو مضبوط کرنا:

“خود کو خوشامد سے بچانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ آپ کو سچ بتانے سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔” کسی بھی ادارے کو قائم رکھنے اور اراکین میں اپنی اثر پذیری کے لیے لیڈر کو ساکھ اور اعتماد پیدا کرنا پڑتا ہےاور بھروسے کا ایک ایسا ماحول قائم کرنا پڑتا ہے جہاں ہر قسم کی تنظیمی امور تک مکمل رسائی کا ایک مربوط نظام قائم ہو ۔جہاں مستقل بنیادوں پر معمولات و معاملات پر کھلم کھلا بحث و مباحثے کی آزادانہ اجازت ہو ۔جب تک اراکین تنظیمی معاملات میں خود کو شامل پائیں گے تب تک وہ اخلاص اور کمٹمنٹ کے ساتھ تنظیمی اہداف کو حاصل کرنے میں شامل رہیں گے لیکن اس کے لیے بھی اہداف کے تعین پر توجہ مرکوز کرنے والا (مثبت نتائج برامد کرنے والا) ماحول قائم کرنا ضروری ہے۔ ان سب افعال کی انجام دہی کے لیے لیڈر کو اپنی استطاعت اور استعدادی قوت پر یقین ہونا چاہیے اسی استطاعت واستعدادی قوت کے بل بوتے پر ہی وہ کامیاب انتظامی تبدیلیوں کی منزلیں طے کر پاتا ہے۔

 نمبر 5: قیادت کا نعم البدل:

“ایک بہترین ماحول ہی بہترین نعم البدل کو جنم دیتا ہے.”انتظامی تبدیلوں کی فہرست میں سب سے پہلا کام مستقبل کے لیے نئی قیادت کی تیاری ہے ایک لیڈر کامیاب تب تک نہیں گردانا جاتا ہے۔ جب تک وہ اپنی میراث (legacy )پیچھے نہ چھوڑ جائے اور اس کے لیے اسے اپنی تنظیمی وراثت میں اعلیٰ معیارات کے قابل تقلیداور عمدہ خصوصیات سے مزین پیروکاری اور تقلید سے مبرّا خود اعتمادی سے بھرپور زیریں سطح کا قیام عمل میں لانا ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی بھی عہد ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہتا۔ مسلسل تبدیلیوں سے جوجھتی اس دنیا سے منسلک رہنے اور ہم آہنگ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قیادت کی ایسی توانا سطح قائم کی جائے جو مستقبل کے چلینجز اور تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کی سکت رکھتا ہو۔ایک اچھا لیڈر یا رہنما ہمیشہ رہنماؤں کی اگلی نسل کو تلاش کرنے، حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی نشوونما کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ایک اچھا لیڈر دوسروں کے کارناموں پر فخر کرتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی اپنی ساکھ خراب نہیں ہوتی بلکہ اس کا امیج بہتر ہو جاتا ہے۔

نمبر 6: قیادت، ارادہ اور نظم وضبط:

“جہاں ارادہ عظیم ہو وہاں مشکلات بڑی نہیں ہو سکتیں۔”قیادت کی بلندی تک پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے اس کے لیے ایک حقیقی عزم غیر متزلزل ارادے کی ضرورت ہے قیادت کے لیے نظم و ضبط کا ہونا بہت ضروری ہے نظم و ضبط کا مطلب آزادی کھونا نہیں ہے۔ نظم و ضبط کے احساس کے بغیر ہر کوئی آسانی سے اپنے جذبات مزاج اور دنیاوی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے لہذا لیڈروں کے لیے نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ خود پر اچھی طرح قابو پا لیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ایک سچا رہنما اپنی زندگی دوسروں کی فلاح بہبود کے لیے وقف کر دیتا ہے وہ اپنے اور معاشرے کی بہتری کے لیے لگاتار کام کرتا رہتا ہے وہ دن رات اسی تگ و دو میں رہتا ہے کہ اپنی اثر پذیری کی حدود سے باہر رہ کر ایک ایسی مضبوط وراثت قائم کرے جو دوسروں کی زندگیوں کو تشکیل دینے میں معاون ہو۔  لیڈروں کی طرف سے مضبوط جذبہ دوسروں پر مثبت اثر ڈالتا ہے اور یوں مثبت اور پر امید رویہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح لیڈر خود افزائی اور مورال کی بلندی کے لیے باطنی طاقت کے منبعوں کو استحکام بخشتا ہے۔ قیادت کے عروج تک پہنچنے کے لیے اعتماد کی فضا قائم کرنی پڑتی ہےاور لوگوں کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کو ترجیح دینی پڑتی ہے۔ قیادت کا تعلق عہدے سے نہیں ہے بلکہ قیادت دوسروں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کی مشروط اجازت طلبی سے ہے۔قیادت کا کام ایک فرد کے کسی تنظیم کے اندر قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کا عمل ہے قائدانہ کردار وہ ہوتا ہے جو صف بندی کو فروغ دینے ذہن سازی کا حصول اور دوسروں کی صلاحیتوں کو فروغ دے کر تنظیم کی حکمت عملی کو انجام دینے میں مدد کرتا ہے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *