جامعہ بلوچستان کو صوبے کے قدیم ترین اعلیٰ تعلیمی ادارے کادرجہ حاصل ہونے کے ساتھ یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ آج صوبے کے تمام اداروں میں خدمات انجام دینے اور معاشرے میں مثبت سوچ اور تبدیلیاں لانے والے تقریباً تمام افراد گذشتہ ۴۵ سالوں سے اسی جامعہ سے فار غ التحصیل ہیں۔مگر آج صورت حال بہت مختلف ہے کیونکہ جامعہ کے حالات اور تعلیم و تدریس کا عمل بیحد پیچیدہ اور مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔
جامعہ میں گذشتہ کئی سالوں سے تواتر کے ساتھ اساتذہ، آفیسران اور ملازمین اپنے بنیادی حق یعنی تنخواہ کے بارے میں ہمہ وقت تشویش، پریشانی و سرگردانی اور نااُمیدی کا شکار ہیں۔ ستم بالائے ستم گذشتہ سال نومبر کی آدھی اور اس سال فروری، مارچ اور اب اپریل 2024 کی تنخواہوں کے دُور دُور تک کوئی اثارنظر نہیں آرہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اداروں کی کارکردگی کا دارومدار وہاں کے ملازمین کو ملنے والی سہولیات، مراعات، ترقی کے مواقع، تربیت اور تنخواہوں پر ہوتا ہے۔ اگر ادارے اپنے ملازمین اور اہلکاروں کو ایک اچھا ورکنگ ماحول، بروقت تنخواہیں اور بروقت ترقیاں و پیشرفت کے مواقع فراہم کریں گے تو اسی تناسب سے ان کی کارکردگی بہتر ہوگی۔ جس کا نتیجہ ادارے کی ترقی اور بہتری کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ مگر جامعہ بلوچستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ نہ بروقت تنخواہیں، نہ ترقی اور نہ ہی کام کرنے کے لئے پُرامن اور مناسب ماحول۔
ایسی صورت حال میں مہذب معاشروں میں سول سوسائٹیاں، سیاسی پارٹیاں اور باشعور طبقے خاص طور پرقومی سطح پر الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز اور اینکر پرسنز جو سول سوسائٹی کےاہم ارکان ہوتے ہیں حکومتی کوتاہیوں اور معاشرے کی بے حسی کو اُجاگر کرکے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں قومی سطح کے الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز اور اعلیٰ عہدوں پر فائز جرنلسٹس کو صوبہ بلوچستان کے تمام سرکاری جامعات خصوصی طور پر جامعہ بلوچستان کے مالی مسائل یا تو نظر نہیں آتے یا وہ طاقتور قوتوں اور حکومت کے ہاں اتنی بُری طرح سے بلیک میل ہوچکے ہیں کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا یا تو حکومتی مشینری کا پروپیگنڈہ مشن یا نجی اداروں کی کٹ پتلی بن کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے جس کی وجہ سے عوام اُن سے بُری طرح بددل اور سیاست سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔
ہماری سیاسی پارٹیاں بالخصوص موجودہ حکمران بھی جامعہ کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ موجودہ صوبائی وزیر اعلیٰ جناب سرفراز بگٹی کے واضح احکامات پر بھی عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کی تجویز ہےکہ مستقبل میں اداروں کو فنڈز کی فراہمی ان اداروں کی کارکردگی سے مشروط ہوگی۔ اس اقدام کی اہمیت اور افادیت سے کوئی انکار نہیں لیکن گزارش یہ ہے کہ charity begins at home کیا ہی اچھا ہو کہ وزیر اعلیٰ صاحب قدم اوّل کے طور پر اپنی کابینہ کے ارکان ،تمام صوبائی منتخب نمائندوں اور ایم پی اے صاحبان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کوئی مجوزہ جمہوری طریقہ کار وضع کر لیں اور پھر سلسلہ وار تمام صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی جانچنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ کار اور میکنزم بنا کر اس کو عملی شکل دیدی جائے۔ البتہ کارکردگی جانچتے ہوئی جمہوری اُصولوں اور خاص طور پر Human-centered اِپروچ کو مدنظر رکھیں۔ جس میں تمامتر کوششوں کو صرف اس نکتہ سے دیکھا جاتا ہے کہ اس طرح کرنے سے انسانوں یعنی عوام الناس کو کتنا فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ اس Human-centered اِپروچ میں ہر پالیسی، اقدام، پروگرام اور پروجیکٹ کا محور اور مقصد صرف اور صرف عوام الناس کی ترقی بالخصوص پسماندہ طبقوں کی بہتری سے وابستہ ہوتا ہے۔
آج سے چند سال قبل صوبائی خود مختاری کا حصول ملک بھر کی تمام سیاسی پارٹیوں بالخصوص بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کسی حد تک سندھ اور پنجاب کی دیرینہ خواہش اور مطالبات تھے۔ یعنی چند ایک محکمے مثلاً دفاع، خارجہ اور داخلہ کے علاوہ دیگر تمام محکمے اور شعبے صوبوں کو دے دیے جائے۔ اس مطالبے اور خواہش کی تکمیل اٹھارویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آگئی۔ نتیجتاً NFC ایوارڈ میں صوبوں کو نہ صرف خاطر خواہ مالی فوائد ملنے لگے بلکہ بہت سارے محکموں کے اختیارات اور ذمہ داریاں بشمول ایچ ای سی بھی صوبوں کو تفویض کیے گئے، ۔ دیگر صوبوں سے قطع نظر بلوچستان میں HEC جواس وقت ایک صوبائی چیپٹر بن چکا ہے کو پچھلی تمام صوبائی حکومتوں نے نہ صرف فنڈز جاری نہیں کیے بلکہ HEC سے لاتعلق ہی رہے۔
ادارے کی Ownership تو دور کی بات ہے اٹھارویں ترمیم سے قبل جامعات کو اتنی سخت مالی مشکلات کبھی بھی درپیش نہیں رہیں کہ وہ تنخواہیں بھی ادا کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں۔ ان حالات میں اٹھارویں ترمیم کی بُرائی کرنا اور کوسنا کسی طور مناسب نہیں ہوسکتا۔ اٹھارویں ترمیم میں نقص نہیں بلکہ یہ حکمرانوں کی کوتاہی اور نالائقی کی نشاندہی کرتی ہے۔
علاوہ ازیں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ صوبے میں عمومی ترقی خاص طور پر تعلیم (اعلیٰ تعلیم بالخصوص) اور صحت کے شعبوں میں بے ترتیبی اور پسماندگی کی بڑی وجہ قبائلی یا نیم قبائلی طرزعمل کی نااہلی اور مالی وسائل کی قلت ہے۔ جب کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے میں پسماندگی کی بڑی وجہ جو سامنے آنے لگی ہے وہ قبائلیت اور قبائلی طرز فکر و عمل نہیں بلکہ افسر شاہی کی ہٹ دھرمی، عوامی نمائندوں کی نااہلی اور نا عاقبت اندیشی ہے۔ بقول کسے اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کے، سالانہ اربوں روپے وفاق کو واپس اس لئے کیے جاتے ہیں کیوں کہ ترقی اور پیشرف کے مناسب منصوبے نہیں بنائے جاسکتے اور ہر سال بلاناغہ فنڈز Lapse ہوتے جارہے ہیں۔
جامعات کسی بھی معاشرے میں ملکی اداروں کونہ صرف مطلوبہ تربیت یافتہ اور اعلیٰ دماغوں کے حامل افرادی قوت فراہم کرتی ہیں۔ جن کی بدولت نہ صرف ملک، معاشی اور تکنیکی ترقی حاصل کرتا ہے بلکہ جامعات انسانی نسلوں کی تربیت اور تہذیبی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم نے نسلوں کی تربیت کرکے مہذب معاشرہ کی تخلیق میں حصہ ڈالنا ہے یا پھر خود کو آئندہ نسلوں کے احتساب کے لئے پیش کرنا ہے۔ یقین کامل ہے کہ آنے والی نسلیں ہمیں ہماری کاہلی اور نالائقی پر نہیں بخشیں گی۔
- جامعہ بلوچستان کی زبوں حالی ۔۔۔ ڈاکٹر رحیم چنگیزی - 29/04/2024