خدا کا ذرّہ، خدائی ذرّہ یا گاڈ پارٹیکل ۔۔۔ جاوید نادری

یہ آرٹیکل پروفیسر پیٹر ہگز کے دنیا سے رخصت ہونے کی مناسبت سے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔

بوسون ذرات مخلوط ذرات ہوتے ہیں مگر ان میں سے چند  ایک کامل یا یک ساختہ بھی ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ذیلی ذرات پر مشتمل نہیں ہوتے اور بنیادی ذرات میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں یہ نام طبیعیات دان ستیندرا ناتھ بوس کی وجہ سے ملا ہے جو آئینسٹائن کے ساتھ متعلقہ شعبے میں سرگرم رہے۔ ہگز بوسون کو خدا کا ذرّہ کہا جاتا ہے کیونکہ ماہر طبیعیات پیٹر ہگز اور رفقاء کے پیش کردہ نظریہ کے مطابق، یہ ایک غیر مرئی، کائنات جتنے وسیع “فیلڈ” کا   جیتا جاگتا ثبوت ہے جس نے بگ بینگ کے فوراً بعد تمام مادے کو بڑے پیمانے پر نہ صرف کمیت فراہم کیا بلکہ ذرّات کو ستاروں، سیاروں اور دیگر چیزوں میں یکجا ہونے پر مجبور بھی کیا۔ اس میں نہ تو ابتدائی مادے کی کوانٹم خصوصیات ہیں اور نہ ہی کوانٹم تعاملات کے کیریئرز جیسے برقی مقناطیسی قوت، کمزور قوت، یا جوہری تعاملات ہیں، ہگز بوسون ایک ابتدائی ذرہ ہے جو ہگز فیلڈ سے وابستہ ہے۔ یہ سمندری لہروں کی طرح ہگز فیلڈ کو “کوانٹم ہیجان خیزی” بخشتا ہے۔.

 ہگز فیلڈ توانائی کا ایک فیلڈ ہے اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کائنات کے ہر خطے میں موجود ہے۔ اس فیلڈ کے ساتھ ہگز بوسون ایک بنیادی ذرے کی صورت ہوتا ہے جسے یہ فیلڈ دوسرے ذرات، مثلاً الیکٹران کے ساتھ مسلسل تعامل کے لیے استعمال کرتا ہے۔وہ ذرات جو فیلڈ کے ساتھ تعامل کرتے ہیں وہ اس سے گزرتے ہی سست پڑ جاتے ہیں یعنی کمیت حاصل کرکے بھاری ہو جاتے ہیں۔

کمیت خود ہگز فیلڈ سے پیدا نہیں ہوتا۔ مادے یا توانائی کو کسی چیز سے پیدا کرنے کا عمل طبیعیات کے قوانین (law of conservation ) کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم، کمیت ہگز بوسون کے ساتھ ہگز فیلڈ میں تعامل کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔

ہگز فیلڈ نے کائنات کی پیدائش کے فوراً بعد کے لمحات میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ اس خلا (vacuum ) کی نوعیت کا تعین کرتا ہے جو ہمارے مکان و زمان (space-time) کو بھرتا ہے۔ یہ مادے اور تعاملات کے وجود کو (جیسا کہ ہم انہیں اخذ کرتے ہیں) ممکن بناتا ہے اور یہ تمام معلوم ابتدائی ذرات کے بڑے پیمانے پر نمودار ہونے کا ذمہ دار ہے۔ ہگز فیلڈ کے بغیر، اور اسی طرح خدا کے ذرات (ہگز بوسون) کے بغیر، اس کائنات میں کوئی جوہری عناصر، کوئی ستارے، سیارے، میں، آپ، اور کوئی زندگی نہیں ہوتی۔

ہگز بوسون کے مبینہ وجود کو 1964 میں پیٹر ہگز، فرانکوئس اینگلرٹ اور رابرٹ بروٹ کے تجویز کردہ متشاکل میں بگاڑ (symmetry-breaking )کے طریقہ کار کے نتیجے میں نظریہ بنایا گیا تھا۔ اس طریقہ کار کے بغیر، بنیادی تعاملات کا ایک نظریہ بنانا ناممکن لگتا تھا جو توانائی کے تمام پیمانوں پر درست انداز میں لاگو ہو، خاص طور پر، کوئی کمزور تعامل کے وجود کی وضاحت نہیں کر سکتا جو صرف بہت کم فاصلے پر کام کرتا ہے، اور ایٹم کے مرکزے (نیوکلئس) کے اندر تابکاری کے لیے ذمہ دار ہے۔ ہگز بوسون کو لارج ہیڈرون کولائیڈر (LHC) میں بیک وقت دو بڑے کثیر مقصدی تجربات “ATLAS” اور “CMS” کے ذریعے دریافت کیا گیا۔ اس دریافت کا اعلان 4 جولائی 2012 کو CERN  “Conseil Européen pour la Recherche Nucléaire” میں کیا گیا تھا۔ ہگز بوسون نسبتاً بھاری اور بالکل غیر مستحکم ذرّہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ڈھونڈنے میں سینتالیس سال سے زیادہ عرصہ لگا۔ یہ ہائیڈروجن ایٹم سے 133 گنا زیادہ بھاری ہے۔ اس کی  (انتہائی قلیل) اوسط زندگی ایک سیکنڈ کے اربویں حصّے سے بھی بہت کم ہے۔

ہگز بوسون نے دیگر تمام ابتدائی ذرّات کے بڑے پیمانے پر ہونے کا سوال حل کر دیا۔ لیکن اس کی اپنی کمیت غیر واضح ہے، تاہم یہ خیال جاتا ہے کہ ہگز بوسون کو ہگز فیلڈ کے ساتھ اپنے تعامل سے دوسرے ذرات کی طرح اپنی کمیت ملتی ہے۔

 اگر ہگز فیلڈ اور ہگز بوسون موجود نہیں ہوتا تو ذرات میں ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے درکار مطلوبہ کمیت حاصل نہیں ہوتا، اور وہ روشنی کی رفتار سے آزادانہ طور پر  یونہی تیرتے رہتے اور کہی بھی کسی چیز کا وجود نہیں ہوتا۔

سائنس دان ابھی بھی ہگز بوسون پر تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ جس فزیکل خلا میں ہم رہتے ہیں وہ ابتدائی کائنات میں کیسے پیدا ہوا تھا۔ دوسری بات، وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس فزیکل خلا کو کس چیز سے مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہگز بوسن اپنی مخصوص خصوصیات کی وجہ سے تاریک مادے (dark matter) کی علامات تلاش کرنے کے لیے ایک منفرد پورٹل بھی ہو سکتا ہے۔

مشہور برطانوی ماہر طبیعیات اسٹیفن ہاکنگ نے خبردار کیا تھا کہ “God particle” کائنات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ توانائی کی سطح پر ہگز بوسون، جو کائنات میں موجود ہر چیز کو شیپ اور سائز دیتا ہے، غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک “catastrophic vacuum decay” کا سبب بن سکتا ہے جو مکان و زمان کے گرنے (collapse) کا باعث بنے گا، “یہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے اور ہم اسے آتے نہیں دیکھیں گے،” ہائی انرجی پر ہگز کے غیر مستحکم ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، مستقبل قریب میں اس طرح کی تباہی کا امکان نہیں ہے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *