جامعہ بلوچستان کا مالی بحران یا پرائیوٹائزیشن کی جانب قدم ۔۔۔ علی رضا منگول

جامعہ بلوچستان کا قیام ستمبر 1970ء میں عمل میں آیا جو صوبہ بلوچستان کی اولین یونیورسٹی ہے۔ آج اس یونیورسٹی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق علوم سے نوجوانوں کی کثیر تعداد فیضیاب ہونے کے لیے دور افتادہ علاقوں سے آتے ہیں۔ جن میں بیشتر طلباء انتہائی پسماندہ علاقوں کے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اکثر خاندان اپنے مال مویشی بیچ کر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوئٹہ کی ان یونیورسٹیوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن پاکستان کے ازکار رفتہ نصاب میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا جن کے لیے اپنی زندگیوں کو جہنم میں جھونک کر والدین آئندہ نسل کے لیے ایک آسان اور انسانی زندگی کے خواب دیکھتے ہیں۔
بلوچستان کی پوری آبادی کے لیے آج بھی بلوچستان میں صرف تین یونیورسٹیاں کام کررہی ہیں، جن میں ایک یونیورسٹی صرف خواتین کے لیے مختص ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تمام یونیورسٹیاں بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں تعمیر کی گئی ہیں جن میں دور دراز کے علاقوں کے نوجوانوں کے لیے حصول علم جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مگر بلوچستان کے تمام وسائل کو پس پشت ڈال کر یہاں تعلیمی اداروں کو حکومت اور ریاست کے لیے خطرہ سے تعبیر کرکے جانتے بوجھتے بلوچستان کے ماتھے پر پس ماندگی کا لیبل چسپاں کیا گیا ہے۔ پچھتر سالوں سے یہاں بیوروکریسی، سیاسی پارٹیوں، انصاف کے اداروں اور میڈیا نے صرف اقرباء پروری کی نیت سے بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے ترقی کے دریچے بھی مکمل سیل بند کردیے ہیں۔
بلوچستان کی پہلے یونیورسٹی کے لیے 1996ء میں بارِ اوّل بلوچستان صوبائی اسمبلی نے ایکٹ پاس کیا جس کے تحت حکمت عملی طے کرنے والے اداروں خصوصاً سنڈیکیٹ، سینیٹ، اکیڈمک کونسل اور فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی میں اساتذہ کرام، طلباء، ممبران صوبائی اسمبلی اور ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس کو منتخب نمائندگی دی گئی۔ مگر پس پردہ پاکستان کی پیراسائٹ بیوروکریسی اور دیگر مقتدر قوتیں، حصول علم کی اس قدیم اور واحد اُمید جامعہ بلوچستان کے 1996ء کے ایکٹ کو ناکارہ اور بے اثر کرنے کی خاطر مسلسل سازشوں میں مصروف رہے اور انہوں نے اپنے اقرباء، نااہل آفیسران اور مختلف بیرونی محکموں کے ریٹائرڈ ملازمین کو یہاں مسلط کرکے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل میں تمام اخلاقیات اور قوانین کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
حکمران طبقے نے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کی خاطر جامعہ بلوچستان پر من پسند نااہل افراد کو مسلط کرکے بلوچستان کے نوجوان طالب علموں کے مستقبل کو تاریک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ذاتی مفادات کی خاطر شعبہ انصاف، دفاعی اداروں اور سیاسی افراد نے ہمیشہ ان نااہل افراد کو حتیٰ کہ وائس چانسلر کے عہدوں پر بھی فائز رکھا اور انتہائی دیدہ دلیری سے ان جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر کار ناکارہ اور عوام دشمن حکمران طبقے نے یکجا ہوکر بلوچستانی عوام اور خصوصاً نوجوانوں کے مستقبل کے خلاف صوبے کے جملہ سرکاری جامعات میں تعلیم کی بربادی کے لیے ایک ایسا ایکٹ منظور کروایا جس میں پالیسی ساز اداروں میں سے اساتذہ کرام، آفیسران، ملازمین اور طلباء و طالبات کے منتخب نمائندوں کو بے دخل کردیا گیا۔ اس طرح یونیورسٹی سے جمہوری کلچر کا خاتمہ کرکے اپنی من مانی کے لیے وائس چانسلر کو بادشاہ اور مختارِ کل کی حیثیت پر براجمان کردیا۔
نتیجے کے طور پر صوبہ بھر کی جامعات خصوصاً جامعہ بلوچستان پر مسلط بادشاہوں سے حسب منشا کام کروانے کے لیے کرپشن کی کھلی چھوٹ دی گئی جس سے یہ جامعات مالی بحران کا شکار ہوگئیں۔ معاشی بحران کی بنیادوں میں شخصی اور بیوروکریٹک طریقہ کار کا تسلط اور صاحب طاقت افراد کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے نااہل اور اقرباء پرور لیڈروں کی کرپشن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جامعہ بلوچستان کے علاوہ دیگر جامعات بھی مالی مشکلات کی شکایت کررہی ہیں اور BUITEMS کے طلباء وطالبات کے لیے بسوں کی آمدورفت میں تقریباً ساٹھ فیصد سے زائد کمی کی گئی ہے جس سے طلباء کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ البتہ فیسوں میں اضافے کے بھی قوی امکانات موجود ہیں جس کے لیے یہ تمام ڈرامے اسٹیج کیے جارہے ہیں۔
ان حالات سے متاثر جامعہ بلوچستان کے اکیڈمک، آفیسرز اور ملازمین کی ایسوسی ایشنوں پر مشتمل جوائنٹ ایشن کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد یونیورسٹی کے اساتذہ، آفیسران اور ملازمین کے جملہ حقوق کی حفاظت اور انہیں درپیش مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے تمام جامعات میں حکمت عملی ترتیب دینے والے اداروں میں اساتذہ کرام، آفیسران، ملازمین اور طلباء و طالبات کی نمائندگی اور اختیار کی بحالی سمیت فرد واحد کے اختیار اور تسلط کا خاتمہ ہے۔ اس کے علاوہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پاس جامعہ اور ملازمین کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا ماننا ہے کہ جامعہ بلوچستان کے موجودہ مالی اور انتظامی بحران اور جامعہ سے منسلک جملہ ملازمین کو درپیش مسائل پر موجودہ غیرقانونی طور پر مسلط کردہ نااہل افراد اور وائس چانسلر کو جامعہ بلوچستان کے وجود اور ارتقاء سے کسی قسم کا لگاؤ اور دلچسپی نا ہونے سمیت ملازمین اور تعلیم دشمنی سے بلوچستان کے نواجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جس کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی عرصہ تین سال سے شدی گرمی اور سردی کے موسموں اور بدترین حالات، حتیٰ منفی (10) دس ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی مسلسل اس تاریخی ادارے کو بچانے کے لیے احتجاجی تحریک پر ثابت قدمی سے جمی رہی ہے۔ بطور ثبوت جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے قائدین کو دباؤ میں رکھنے کے لیے متعدد بار ان کے خلاف عدالت میں من گھڑت مقدمات بھی دائر کیے گئے جن کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے قائدین نے نہایت پامردی سے سامنا کیا۔ بالآخر وائس چانسلر نے کئی مقدمات میں پس پائی اختیار کرتے ہوئے انہیں واپس لے لیا مگر چند اب بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔
اس سے ایک بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کو جامعہ کی پیشرفت سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تمام ریاستی اداروں کی پشت پناہی کے باوجود حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے اس معاملے میں اپنا پیٹھ دکھا دیا ہے اور صرف رسمی ہمدردی جتا رہی ہیں۔ گزشتہ سال ماہِ رمضان میں بھی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے پولیس کا سہارا لیتے ہوئے نااہل اور مسلط کردہ وائس چانسلر اور انتظامیہ نے اساتذہ، آفیسران اور ملازمین پر لاٹھی چارج کروایا جس سے متعدد اساتذہ کرام، آفیسران اور خواتین سمیت کئی ملازمین شدید زخمی ہوئے۔ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے جامعہ کے ماحول اور اس کی ترقی میں رکاوٹ کے حالات کو پیدا کرنا کسی طور طلباء اور نوجوانوں کے مفاد میں نہیں جس کی مذمت کے ساتھ ساتھ اسے ہمیشہ تعلیم اور طلباء دشمنی سے تعبیر کرتے ہوئے یاد رکھا جائے گا۔
جامعہ کے اساتذہ، آفیسران، ملازمین اور طلباء و طالبات کی مشترکہ ایکشن کمیٹی اس بات پر قائم ہے کہ وہ جامعہ، ملازمین اور طلباء کے ارتقاء اور مفادات کے سامنے کسی بھی سازش اور نااہلی کا آخری حد تک مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے بلوچستان بھر کے ملازمین پر تمام ملازمین کے مفادات کے تحفظ اور پرامن حالات کی تشکیل کے لیے یکجا اور متحدہ جدوجہد کرنے پر زور دیا ہے۔ بلوچستان کے ملازمین ایک دوسرے کے درد اور تکلیف میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں چونکہ آئندہ حالات پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کی بدولت اچھے حالات نہیں ہوسکتے۔ جس کی وجہ سے ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

علی رضا منگول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *