چراغ تلے اندھیرا ۔۔۔ راحیلہ بتول

گردش دوراں کہہ لیں یا پیٹ کے دوزخ کی آگ، بہتر روزگار کی تلاش بالآخر ہمیں ملکی ادارے کے ایک تربیتی مرکز لے گئی جہاں ملک بھر سے ہررنگ ونسل کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیاں عسکری تربیت لینے کے لیے جمع تھے۔ جس طرح ٹریننگ کے شرکاء کا تعارف کسی بھی ٹریننگ کا ایک اہم جزو ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہمیں بھی مختلف نامی گرامی شخصیات کے سامنے کئی بار اپنا تعارف کرانے کا موقع ملا۔
اسی تسلسل میں ایک بار اپنا تعارف کراتے ہوئے نہایت خوشگوار احساس تب ہوا جب میرے اس افتتاحی جملے ” I am hazara residing in Quetta “ کے بدلے سامعین سے آواز آئی ” Hazara ! Khalid hoseeni’s Hazara ?” چہرے پہ مسکراہٹ، آنکھوں میں حیرت اور دل میں مسرت لیے اثبات میں سر ہلا تو دیا پر ساتھ ہی دماغ اس غیر روایتی تعریف اور شناخت پہ ذرا چونک بھی گیا۔ کیونکہ ہمارے کان تو وہی چند روایتی جملے جوابا سننے کے عادی تھے جیسے کہ ، “اچھا !وہی جنرل موسی والے ہزارہ—- ” یا پھر ” جی جی ، وہ ہزارہ والے ہزارہ — ” وغیرہ وغیرہ
خیر، اس واقع کو ابھی کوئی ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ انفارملی کسی دوسرے پلیٹ فارم میں مجھےدوبارہ اپنے کوائف دہرانے کا شرف حاصل ہوا۔  I am Hazara کا تکرار کرنے پر اس بار کا ردعمل میرے لیے چشم کشا ثابت ہوا۔” ارے! کیا آپ وہی جلیلہ حیدر والی ہزارہ ہیں؟” میرے چہرے کے بدلتے تاثرات ان کو یہ باور کروانے کے لیے کافی تھے کہ میرے لیے ،میری یہ نئی پہچان کس قدر حیران کن اور ولولہ انگیز تھی۔ بس اب کیا، میرے مثبت جواب کے بعد ہزارہ قوم کی تاریخ اور ان کی جدوجہد پر ایک سرسری سی گفتگو کا آغاز ہوا جس میں جلیلہ حیدر کی شخصیت لائم لائٹ پہ رہی۔ مہم یہ کہ اس گفتگو سے کم سے کم یہ اندازہ تو ہوا کہ ہزارہ قوم کے لئے جلیلہ کی کاوشیں اور خدمات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
چلیں خیر اب دیکھتے دیکھتے کئی دن، ہفتے، مہینے اور بالآخر سال بھی گزر گیا۔ نئے سال2023 کے آغاز میں سماجی رابطے کی کسی ویب سائٹ پر ایک کیلنڈر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ہزارہ قوم کے چیدہ چیدہ سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کی تصویریں شاید اس مقصد سے لگائی گئی تھیں کہ انھیں ان کی خدمات کے پیش نظر خراج عقیدت پیش کیا جائے ۔ لیکن! یہ منظر میرے لئے کسی دھچکہ سے کم نہیں تھا کہ کیلنڈر کو صرف مرد شخصیات کے حسن سے ہی آراستہ کیا گیا تھا۔ خواتین کو، ان کی قربانیوں، محنتوں اور خدمات کو،ا اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ انھیں بھی اس کیلنڈر کی زینت بنایا جاتا اور مردوں کے برابرتصور کر کے اخوت و مساوات کا درس دیا جاتا ۔اب خواہ وہ دنیا کی 100 با اثر خواتین کی فہرست میں شامل جلیلہ حیدر ہو، صدارتی ایوارڈ یافتہ شازیہ بتول یا پھرعلاقے کی کوئی مشہور کونسلر باجی سب کی سب گھر کی مرغی دال برابر۔
سائنسی اصولوں کے مطابق، زن بیزاری کا وائرس انسانی جسم میں داخل ھوتے ہی دماغ پر حملہ آور ہو کرنہ صرف اس کے خود کے سوچنے سمجھنے اور چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیت کو ختم کردیتا ہے بلکہ، چھوت کی بیماری بن کر، اس سے میل ملاپ رکھنے والے عزیزوں اور یار دوستوں کو بھی متاثر کرتا جاتا ہے۔ یوں بڑے پیمانے پہ عورتوں کی بے قدری اور تنزلی دیکھنے میں آتی ہے۔ جیسا کہ اس معاملہ میں ہوا۔ کیلنڈر کی تصویر کے نیچے سب داد دے بھی رہے تھےاورداد وصول بھی کر رہے تھے لیکن کسی کو اس بات کا ادراک تک نہیں تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
پھربے شک آپ ایک نہیں ہزاروں یوم خواتین منا لیں، سب زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔ مگرچونکہ مایوسی کفر ہے توبس اسی بہانے دل کو یہ آس دلا بیھٹے ہیں کہ زن بیزاری کا ویکسین بھی جلد از جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوگا اور لوگ اس بیماری سے چھٹکارا پا کرعورتوں کو انکا جائزخراج دینے کے قابل ہو سکیں گے۔ اور پھر اگلے ویمن ڈے تک اسں کیلنڈر کا ایک زنانہ ورژن بھی دیکھنے کو ضرور ملے گا۔

راحیلہ بتول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *