ہزارہ میموریل مینار ۔۔۔ اسحاق محمدی

یہ 1988ء کے اوایل کی بات ہے ایک دن مجھے اتحاد جوانان ہزارہ کی طرف سے ایک میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جس کا موضوع “ہزارہ جنگ آزادی یادگاری مینار” کی تعمیر تھا۔ مقررہ تاریخ اور وقت پر میں اتحاد جوانان ہزارہ کے دفتر واقع کمرہ نمبر1 بالائی منزل ہزارہ عیدگاہ گیا تو اتحاد کے اس وقت کے صدر مرحوم محمدعلی بابل نے اپنی کابینہ و اراکین کے ساتھ مجھے خوش آمدید کہا۔ دھیرے دھیرے ہزارہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کئی دیگر لوگ بھی آتے گئے۔ میٹینگ کی شروعات کرتے ہوئے مرحوم محمدعلی بابل گویا ہوئے جس کا لب لباب یہ بنتا تھا
“1892ء میں امیر جابر عبدالرحمان خان کے ہاتھوں ہزارہ قوم کی شکست اور ان کے آبائی وطن ہزارہ جات کو مقبوضہ سرزمین بننے کی سوسالہ تاریخ (1992ء) بہت قریب ہے۔ اس سو سالہ تاریک دور میں ہزارہ قوم کی جس طرح نسل کشی کی گئی، انہیں کنیز و غلام بنایا گیا اور ان کی زرخیز زمینوں کی افغان کوچیوں میں بندربانٹ کرکے انہیں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا وہ اپنی جگہ، لیکن ہزارہ قوم نے جس بہادری اور جرات سے انگریز استعمار کے اس ایجنٹ کے خلاف اپنی آزادی اور بقاء کی طویل جنگ بغیر کسی بیرونی طاقت کی کمک و امداد کے لڑی وہ انسانی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے۔ لہذا ہم نے اتحاد جوانان ہزارہ کے پلیٹ فارم سے ہزارہ قوم کی اس دلیرانہ جدوجہد کو نمایاں کرنے کے لئے ہزارہ قبرستان میں ایک “ہزارہ میموریل مینار” تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کی بیرونی سطح پر اس طویل جدوجہد آزادی کی مختصر روئیداد، اہم واقعات کی تاریخ اور قومی ہیروز کے نام اور کارنامے مندرج کئے جائیں گے تاکہ ہماری موجودہ نسل اور آنے والی نسلیں اپنی تاریخ اور آباء و اجداد کی شجاعتوں اور کارناموں سے واقف ہوسکے”۔ لازمی امر تھا کہ اس طرح کے قومی منصوبہ کے نفس سے بلا کس کا اختلاف ہوسکتا تھا، لہذا سبھی شرکاء نے اسکی تائید کی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد اس منصوبہ کی تکمیل کیلیئے تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں:

1- ڈیزائن کمیٹی
اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ مختلیف انجیئیرز سے ملکر اس یادگاری مینار کے ڈیزائن کو حتمی شکل دیں اور اخراجات کا تخمینہ لگائے۔
2- تاریخی کمیٹی
اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ طویل ہزارہ جدوجہد کے اہم واقعات، اہم تاریخوں اور اہم قومی قہرمان (ہیروز) کے نام اور کارناموں کی نشاندہی کریں تاکہ ان کو اس یادگاری مینار پر تحریر کیا جاسکے۔
3- ڈونیشن کمیٹی
اس کمیٹی کے ذمے اخراجات کا تخمینہ آنے کے بعد عطیات کی جمع آوری تھی تاکہ اس منصوبہ کو عملی شکل دی جاسکے۔ تینوں کمیٹیوں کو خود مرحوم محمدعلی بابل لیڈ کرتے تھے۔ ڈونیشن کمیٹی میں زیادہ تر اتحاد جوانان ہزارہ کے عہدیداران اور اراکین تھے۔ مجھے ڈیزائن اور تاریخی کمیٹیوں میں رکھا گیا۔ مینار کے ڈیزائن اور اخراجات کے تخمینے کے لئے ہماری کمیٹی نے کئی ہزارہ انجنئیرز سے ملاقاتیں کی لیکن سوائے مرحوم مظفرعلی چنگیزی اور مرحوم ناصرعلی کے باقیوں کے پاس کوئی خاص آئیڈیا نہیں تھا۔ چنگیزی صاحب اور ناصر صاحب دونوں زیادہ تر اسی موجود روایتی ڈیزائن کے حامی تھے۔ البتہ جناب اسداللہ اورزگانی کا تجویز کردہ ڈیزائن کافی یونیک تھا۔ ان سےکمیٹی کے ارکان کی ملاقات ان کے آفس میں ہوئی۔ انکا خیال تھا کہ یہ ایک اہم قومی پروجیکٹ ہے، اسے بہت سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اسے ہزارہ قبرستان سے ملحق پہاڑی سلسلہ کے کسی بلند مقام پر تعمیر کیا جائے تاکہ یہ سب سے نمایاں نظر آئے اور دوسرا یہ کہ چونکہ ہزارہ جدوجہد آزادی کے دوران ہزارہ قوم کے پاس سب سے اہم ہتھیار دیسی ساختہ بندوق تھا جیسے ہزارہ گی میں “تفنگ سلطانی” کہا جاتا ہے لہذا اس ہزارہ میموریل مینار کا ڈیزائن اسی تفنگ سلطانی کی طرز پر ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی ہر قسم کی رضاکارانہ خدمات اور تعاون کی پیشکش بھی کی۔ یہ تجویز کافی معقول تھی لیکن اس میں ٹیکنِکل مشکلات کے ساتھ اس پر اخراجات کا تخمینہ بھی کافی زیادہ تھا لہذا کمیٹی کو اسی روایتی ڈیزائن کا انتخاب کرنا پڑا۔ تاریخی کمیٹی کے روبرو سب سے اہم ٹاسک بنیادی تاریخی ماخذ پر دست رسی تھی جن میں بابائے تاریخ افغانستان کے نام سے معنون شادروان فیض محمد کاتب ہزارہ کی کتاب سراج التواریخ سر فہرست تھی جس کی اس وقت صرف ایک کاپی تنظیم نسل ہزارہ مغل کے ہاں دستیاب تھی، لیکن بدقسمتی سے تمام تر کوششوں کے باوجود اس وقت کے چیرمئین جناب غلام علی حیدری اصل کتاب تک رسائی تو درکنار اسکی کوئی فوٹوکاپی تک دینے پر راضی نہ ہوا کیونکہ موصوف کا مرحوم بابل سے کچھ پرخاش تھا، حالانکہ اس دوران کمیٹی نے شادروان پروفیسر ںاظر حسین کے توسط سے بھی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔
میں نے اس کمیٹی کے ایک رکن ہونے کے ناطے شادروان حسن فولادی کی کتاب “دی ہزارہ” اور کئی دیگر کتب سے اہم واقعات، اہم تاریخیں اور جدجہد آزدی کے چند قومی ہیروز کے نام اور کارنامے مختصراً لکھ کر مرحوم محمدعلی بابل کے حوالے کیے، باقی اراکین نے بھی شاید ایسا ہی کیا ہوگا، مجھے زیادہ معلومات نہیں۔ ڈونیشن کمیٹی کو ابتدا میں کافی مشکلات درپیش رہیں کیونکہ ایسے قومی منصوبوں کے لیے عطیہ دینے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے، لیکن آگے جاکر جب فوجی آمر جنرل ضیاء نے قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیں اور نئے انتخابات کا اعلان کردیا تو حسب روایت ہمارے درجنوں “امیدواران” قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر انتخابی دنگل میں اتر گئے تب انکی طرف سے کمیٹی کو اتنے عطیات ملے جن سے اس قومی میموریل منار کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کیا جاسکتا تھا۔ سو مرحوم محمدعلی بابل نے اپنی ٹیم کے ساتھ بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ میرا چونکہ آنے جانے کا راستہ وہی پڑتا تھا لہذا روز وہاں سے گذرتے ہوئے مرحوم سے علیک سلیک ہوتی تھی۔ بنیادی ڈھانچہ مکمل ہونے کے بعد جب دوسرے فیز یعنی سنگ مرمر پر تاریخی واقعات کی کندہ کاری اور تنصیب کا مرحلہ آیا اور مزید فنڈ کی ضرورت پڑی تو چونکہ انتخابات کا دور گذر چکا تھا اور قومی جذبے سے سرشاری کا موسم بھی ماند پڑ گیا تھا اس لیے تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ فنڈ نہ ملا اور اس قومی منصوبہ کی تکمیل کھٹائی میں پڑ گئی۔
22 جون 1995ء کو محمدعلی بابل مختصر علالت کے بعد اس دارِ فانی سے چلے گئے۔ بدقسمتی سے ان کے بعد اتحاد جوانان ہزارہ کے پاس اس جیسا ویژن اور انرجی رکھنے والا فرد نہیں تھا جو اس قومی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا، لہذا مذکورہ پراجیکٹ آج تک اسی طرح تشنہ تکمیل مرحلہ میں ہے۔ اب جبکہ اگلے سال جنوری 2024ء کے آخر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہو چکا ہے، ایسے میں کوئی قومی ادارہ اس کام کو بےحد آسانی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔ نیز اب اُس وقت کی بہ نسبت ہزارہ جنگ کے بارے میں بھی کافی زیادہ اور مستند معلومات دستیاب ہیں۔ حالیہ سالوں کے دوران صرف 25 ستمبر کو چند درجن خورد وبزرگ، ہزارہ جات کے آخری محاز، تاریخی سرزمین اورزگان کے سقوط کی مناسبت سے اس میموریل مینار پر آکر شمع روشن کرتے اور چلے جاتے ہیں۔
یہ ہے ہزارہ میموریل مینار کی تعمیر کا پس منظر!

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *