مذہب میں سیاست کا تڑکا ۔۔۔ اسحاق محمدی

اس وقت پورے پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیاں اور امیدواران غریب عوام سے بڑھ چڑھ کر جھوٹے وعدے کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن میرے اس مضمون کا فوکس علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاون کے حلقے ہیں جن میں حسب معمول درجنوں امیدواران مختلف پارٹیوں کی طرف سے یا آزاد حیثیت سے قسمت آزمائی کے لئے انتخابی دنگل میں کود پڑے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک بلند بانگ وعدوں کے ذریعے عوام کی توجہ حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ پاکستانی ہزارہ قوم کی تاریخ میں پہلی بار عباقبا پہنے ہمارے مولوی بھی قسمت آزمائی کے لئے نکل پڑے ہیں۔ ان میں سے ایک امیدوارعلامہ حسنین الحسینی کا شروع دن سے یہ موقف رہا ہے کہ سیاسی میدان گویا انہی کی میراث ہے جبکہ باقی تمام لوگ (پارٹیاں اور امیدواران) یہود و نصارا کے پیروکار ہیں (تقاریر موجود ہیں)

موصوف کا خیال ہے کہ سیاست، اصل میں انبیاء اور اماموں کی میراث ہے اور چونکہ ہم علماء اپنے آپ کو ان کے وارثین گردانتے ہیں لہذا یہ ہمارا پیدائشی حق بنتا ہے کہ عوام کی سیاسی قیادت ہم ہی کریں۔
 دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہم علماء چونکہ آب زم زم اور دودھ کے دھلے پاکیزہ مخلوق ہیں اس لئے اس عوامی منصب کے حقدار ہم ہی ہیں۔ ہماری آمد سے لوگوں کے اخلاقی قدروں میں بہتری آئے گی، ایمان مضبوط ہوگا اورآسمان سے برکتوں کا نزول ہوگا وغیرہ، وغیرہ۔
تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو صرف چند ہی انبیاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی قیادت کے بھی حامل تھے۔ اکثریت وعظ، نصیحت اور تبلیغ پر مامور تھے۔ یہی حال شیعہ امامان کا ہے۔ سوائے حضرت امام علیؑ پانچ سال اور حضرت امام حسنؑ چھ مہینہ خلیفہ رہنے کے علاوہ باقی کسی امام نے خلافت یا بادشاہی کا دعویٰ نہیں کیا۔ حضرت علیؑ کا خطبہ نمبر 92 نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ جب ان کو خلیفہ بننے کی دعوت گئی آپ فرمانے لگے “مجھے چھوڑ دو اور جاؤ کسی اور کو تلاش کرلو۔ میرے سامنے وہ معاملہ ہے جس کے بہت رنگ اور رخ ہیں۔ جن کی نہ دلوں میں تاب ہے اور نہ ہی عقلیں تلاش کرسکتی ہیں۔ یاد رکھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت قبول کرلی تو تمہیں اپنے ہی علم کے راستے پر چلاؤں گاا اور کسی کی کوئی بات یا سفارش نہیہں سنوں گا۔ لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہارے ہی ایک فرد کی طرح زندگی گزاروں گا۔ بلکہ شاید تم سب سے زیادہ حاکم کے احکام کا خیال رکھوں گا”۔ اسی طرح حضرت امام صادقؑ کے بارے میں معتبر تاریخی حوالوں سے ذکر آیا ہے کہ جب ابومسلم خراسانی نے انہیں یہ دعوت دی کہ وہ آگے بڑھ کر بنوامیہ کی حکومت کے خلاف کھڑے ہوجائیں فوج میں دونگا تو امام نے سختی سے اس کی یہ تجویز رد کردی۔ اس کے بعد ابومسلم خراسانی نے بنی ہاشم شاخ کے آل عباس (بنوعباس) جو رشتے میں رسول اللہ کے چچا تھے سے رابطہ کرکے وہی پیشکش کی اور بنی امیہ کی خلافت کا خاتمہ کردیا۔

عباسیوں کی حکومت 524 سال تک رہی جو بلاخر ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ گویا علامہ الحسینی کا یہ دعویٰ تاریخی حقائق کے صریحاً خلاف اور حقایق سے کوسوں دور ہے۔ شیعہ مراجع میں خمینی صاحب وہ پہلے مجتہید تھے جنہوں نے تصور ولایت فقیہ کے ذریعے ایک تھیوکریٹک حکومت کی بات کی بشرطیکہ وہ عادل ہو اور اعلم ہو۔ یعنی سب سے زیادہ علم والا۔ عام ملا، مولوی اور آخوندزادے تو کسی کھاتے میں نہیں آتے۔ یاد رہے کہ اب بھی مراجع کی بہت بڑی تعداد بشمول آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ فیاض، آیت اللہ علی محقق نسب ملای طرز حکومت یعنی تھیوکریسی کے خلاف ہے۔
اب موصوف کے دوسرے دعویٰ کی بات کرتے ہے یعنی ملاوں کے آنے سے نیکیاں بڑھیں گی اور لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ تو اس ضمن میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اڑوس پڑوس میں کافی مثالیں موجود ہیں جو اس دعوے کے برعکس ہیں۔ کیا پاکستانی طالبان عروج کے دور میں سوات و دیگر قبائلی علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی تھیں یا افغانی طالبان کے پہلے پانچ سالہ دور حکومت اور جاری دور حکومت میں کوئی بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ شاید موصوف یہ کہیں کہ وہ دو نمبری شرعی نظام والے ہیں، جیسا کہ عام طور پر روضہ خوان مولوی دعویٰ کرتے ہیں۔ تو اسلامی جمہوری ایران کے بارے میں کیا خیال ہے؟ رضاشاہ کے دور میں ایران خلیج کا سب سے خوشحال ملک تھا یورپ اور امریکہ کےباشندے روزگار کے لئے ایران کا رخ کرتے تھے۔ تب ایران پورے خطے کا تھانیدار تھا۔ شاہ کے دور میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 20٪ تھی جو اب 60٪ سے اوپر چلی گئی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سالانہ لاکھوں ایرانی ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ کئی سالوں تک شام، افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ایرانی ملک چھوڑ رہے تھے اور اب بھی چھوڑ رہے ہیں۔ ہزاروں ایرانی خواتین عراق، ترکی اور دبئی میں کوٹھیاں چلانے پر مجبور ہیں۔ اس بھیانک تباہی کے ذمہ داران کون ہیں؟  وہی حکمران طبقہ جس کے ٹاپ پر آیت اللہ العظمیٰ آیت اللہ، حجت الاسلام، ثقتہ الاسلام براجمان ہیں۔ پہلے جو عالم تھے ان کے پاس نہ اقتدار تھا اور نہ ہی مال و زر۔ اس لئے وہ صاف ستھرے تھے۔ اب تو سب کے سر کڑاہی میں اور پانچوں انگلیاں روغن و بادام میں ہیں۔ ان آغاؤں کے بگڑے آغا زادوں کی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کے سامنے عرب شہزادے بھی شرمندہ ہیں۔ عراق میں بھی حالات ایران سے زیادہ مختلف نہیں، یہی صورت حال افغانستان کے شیعہ علماء بشمول ہزارہ علماء کی ہے۔ لہذا جناب عالی سے گذارش ہے کہ اس طرح کے بے سروپا مفروضوں کی بجائے اپنے ٹھوس پروگرامز کے ذریعے عوام سے ووٹ مانگے۔

بہرحال ووٹ ایک قومی امانت ہے.

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *