عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی

محمد عالم مصباح اور ان کے بھائی محمد ظاہر

انیس سو بیاسی 1982ء کے دوران شادروان پروفیسر ناظرحسین نے تنظیم نسل نو ہزارہ مغل میں ڈاکٹر علی شریعتی کے افکار و نظریات پر کلاسز کا آغاز کیا۔

ہفتہ میں ایک بار وہ شریعتی کی کتاب “اسلام شناسی” کے مختلف فارسی ابواب پڑھ کر آسان ہزارگی میں اس کی تشریح کرتے تھے اور کلاس کے آخر میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دیتے جاتے تھے۔

راقم اور مصباح ان کلاسز کے ریگولر شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ ہمارے علاوہ زمان دہقانزادہ، عزیز تبسم اور رضا واثق بھی کبھی کبھار ہمارے ساتھ شامل ہوتے تھے ۔ ان کلاسز کی وجہ سے ہم علی شریعتی کے افکار سے واقف ہوئے۔

اتفاق سے انہی دنوں ہزارہ عیدگاہ بلڈنگ کی ایک دکان سے مختار نامی ایک قوما نے فارسی کتابوں کی فروخت کی شروعات کی۔ اس کے ہاں علی شریعتی کی کتابوں کے علاوہ دیگر ایرانی مصنفین جیسے مہدی بازرگان، بنی صدر،کریم سروش، جلال آل احمد، شاملو، سیمین بھبھانی اور پروین اعتصامی وغیرہ کی کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں لکھی گئی معروف کتابوں کے تراجم بھی دستیاب تھے جن سے مصباح نے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کی اکثر راتیں مطالعے میں گذر جاتی تھیں۔ چنانچہ بہت جلد وہ ایک عام شرمیلے اور کم باتیں کرنے والے نوجوان سے نجی اور اجتماعی محفلوں میں سب سے زیادہ بولنے والے مصباح بن گئے۔

انہی سالوں میں ہم دونوں نے مدرسے کے قرون وسطائی نصاب کو ترک کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور قومی طرز فکر کی طرف آگئے۔ پہلا انتخاب ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا پلیٹ فارم تھا۔

میں نے تو بہت پہلے یعنی 1980ء میں ہی سائنس کالج کوئٹہ میں داخلہ لینے کے بعد ایچ ایس ایف کی ممبرشپ اختیار کرلی تھی جبکہ مصباح نے ڈگری کالج سریاب روڑ میں داخلہ لینے کے بعد ممبرشپ اختیار کرلی۔ البتہ 1982ء سے وہ قومی طرز فکر کی طرف آگئے تھے۔

اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے 80 کی دھائی میں پورا خطہ بڑی تبدیلیوں سے گزررہا تھا۔ ایک طرف اپریل 1978ء کو افغانستان میں ثور انقلاب کے نام سے بائیں بازو کی روس نواز حکومت قائم ہوچکی تھی جبکہ دوسری طرف فروری 1979ء کو ایران میں خمینی صاحب کی زیر قیادت، اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا تھا اور مشترکہ بارڈر ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بطور خاص بلوچستان اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے صوبے براہ راست ان سے متاثر ہورہے تھے۔

کوئٹہ میں آباد ہزارہ قوم نے ابتدائی طور پر انقلاب ثور کا اس وجہ سے استقبال کیا کہ صدیوں بعد افغانستان مختلف پشتون خاندانوں کے چنگل سے نکل گیا تھا اور نئی حکومتی سیٹ اپ میں دیگر اقوام بھی بشمول ہزارہ (سلطان علی کشتمند، کریم میثاق) موجود تھے۔ لیکن ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد رائے عامہ یکثر تبدیل ہوتا گیا۔ ولایت فقیہ سے وابستہ مذہبی حلقے بہت سرگرم ہوگئے تھے اور وہ حسب ضرورت، خمینی صاحب کی شخصیت کی دیومالائی کرشمات کی داستانیں گڑنے میں سرگرم تھے۔ چنانچہ ان کے حامیوں کو موصوف کی تصویر کبھی چاند پر اور کبھی مریخ پر دِکھنے لگی تھی جس کے اثرات عوام الناس پر پڑتے گئے اور نتیجتا ان میں انقلاب ثور، بائیں بازو کی سیاست، یہاں تک کہ قومی سیاست بھی عین کفر لگنے لگی تھی۔

ہزارہ قوم کی تنظیمیں جیسے تنظیم نسل نو ہزارہ مغل اور ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن پر بھی کفر کے ٹھپے لگے۔ اجتماعی لحاظ سے یہ بڑا کھٹن اور گھٹن والا دور تھا لیکن مصباح نے قومی سیاست کے صف اول میں رہتے ہوئے نہ صرف اس کا بھرپور دفاع کیا بلکہ اس کو پھیلانے میں بھی پیش پیش رہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تنظیم اور ایچ ایس ایف نے آغلی میٹینگوں کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا جو حاجی آباد سے شروع ہو کر مومن آباد، مری آباد اور نصیرآباد کے تقریباً تمام محلوں میں منعقد ہوتی تھیں اور ان تمام میں لیڈ اسپیکر مصباح ہی تھے۔ 1984ء میں ڈگری کالج سریاب روڑ میں داخلہ لینے کے بعد وہ باقاعدہ طور پر ہزارہ ایس ایف کے ممبر بن گئے۔ 1988ء میں وہ ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ اس دوران انھوں نے قومی سیاست اور تنظیمی امور کے ساتھ ساتھ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے ہزارگی ثقافت کے ترقی و فروغ اور بطورخاص ہزارگی ڈراموں کی ابتدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انہوں نے شہید حسین علی یوسفی اور قیس یوسفی کے ساتھ مل کر کئی یادگار ڈرامے جیسے آل خاتو، مائیندرخنتما، خالق شہید اورکانفرنس وغیرہ کو عملی شکل دی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شیہد یوسفی اور قیس یوسفی ڈراموں کی تھیم (مرکزی خیال) کی حد تک تو بہت اچھے تھے لیکن اس مرکزی خیال کو ڈائیلاگز کی صورت دینے میں کافی کمزور تھے اور اس کمی کو عالم مصباح نے پورا کیا۔ یادگار ڈرامہ خالق شہید کے ایک مرکزی کردار میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور اسمیں شامل مختہ کی تخلیق بھی کی۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ شادروان مصباح نے ہائی سکول کے دور سے ہی اردو شاعری میں طبع آزمائی کی شروعات کی تھی لیکن آگے چل کر فارسی میں پختگی آنے کے بعد انہوں نے فارسی میں شاعری کو ترجیح دی۔

فارسی میں ان کی چند یادگار نظمیں جیسے در ماتم کبوتران، آنجاست میہنم وغیرہ کئی معروف فارسی رسالوں کی زینت بنیں۔ ان کے فارسی مقالے اور تراجم کوئٹہ سے چھپنے والے طلوع فکر، فانوس اور پیام ملیت ھا اور ساتھ ہی ساتھ ایران سے چھپنے والے کئی رسالوں میں بھی شایع ہوئی۔ فارسی گاہنامہ فانوس میگزین کی بنیاد مصباح اور شادروان استاد قسیم اخگر نے کوئٹہ میں رکھی۔

مصباح نے معروف ہزارہ مورخ افضل اورزگانی کی کتاب “المختصر المنقول” کی دوبارہ اشاعت کا بیڑا بھی اٹھایا تھا۔ اسکی کتابت، پروف ریڈنگ مکمل کی تھی اور طباعت کیلئے آمادہ تھی کہ یہ کتاب ایران سے چھپ گئی۔ یاد رہے کہ یہ ہزارہ تاریخ کی ایک اہم کتاب ہے جسے ایک ہزارہ مورخ شادروان محمدافضل اورزگانی نے ایران و عراق میں مکمل کرنے کے بعد 1914ء میں کوئٹہ سے اس کی طباعت کی تھی۔

شادروان مصباح نے معروف ہزارہ مورخ شادروان حسن پولادی کی کتاب “دی ہزاراز” کا فارسی میں ترجمہ کرنا بھی شروع کردیا تھا اور اس کے باب اول تک کام مکمل کرچکا تھا۔ اس دوران انہوں نے امریکہ میں مقیم پولادی صاحب کی فیملی کو خط لکھ کر اسکی اخلاقاً اجازت مانگی تھی جو انہوں نے متاسفانہ نہیں دی اور یوں مصباح نے ترجمہ کرنے کا سلسلہ بند کردیا۔

ہزارہ قوم کا یہ تابناک ستارہ 28 جولائی 1994ء کو اپنے ہی ایک داعشی سوچ رکھنےوالے بھائی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

نسیم جاوید کے مطابق جب اس سے اس گھناونے جرم کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے اطمینان سے جواب دیا کہ مصباح کافر ہوچکا تھا۔

مکافات عمل دیکھئے کہ بعد میں اسی قاتل کے دو نوجوان بیٹے مقتول بن گئے۔ ایک آسٹریلیا میں اپنے روم میٹ کے ہاتھوں قتل ہوا جبکہ دوسرا، ہزارہ ٹاؤن سے بازار کیطرف آتے، ٹیکسی میں دہشتگردی کا نشانہ بنا۔

مصباح کے بھانجے یونس حافظی کے مطابق “دو بیٹوں کے جوان مرگ ہونے کے بعد جب قاتل کو اپنے جرم کا احساس ہوا اور وہ گلے میں رسی باندھے مصباح کے مقبرے پر معافی مانگنے آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی”۔

مجھے زندگی میں مکافات عمل کو اسطرح پورا ہوتا دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا ہے (جاری ہے)

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *