نیوٹرینوز یا بھوت ذرات ۔۔۔ جاوید نادری

اس میں شک نہیں کہ ایٹم ہماری کائنات بناتے ہیں۔ کوئی بھی شے جس کی کمیت (mass) ہو یعنی میں، آپ، یہ کاغذ اور قلم جن کے توسط سے لکھا جا رہا ہے، سب ایٹموں سے بنے ہوئے ہیں۔  ایک لمبے زمانے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایٹم وہ چھوٹے سے چھوٹا بنیادی ذرہ ہے جس سے ساری کائناتیں وجود میں آئی ہیں۔ لیکن اب ہمیں معلوم ہے کہ ان سے بھی چھوٹے ذیلی ایٹمی ذرات موجود ہیں جنہیں کوارک اور لیپٹون کہا جاتا ہے۔ انہی ذیلی ذرات میں سے ایک ذرہ نیوٹرینو یا بھوت ذرہ کہلاتا ہے۔

نیوٹرینو الیکٹران کی ایک قسم ہے۔ لیکن نیوٹران کی طرح ان کا کوئی چارج نہیں ہوتا۔  وہ ہماری کائنات میں سب سے زیادہ پائے جانے والے ذرات میں سے ہیں۔ یہ سب سے چھوٹے ذرات بھی ہیں۔کھربوں نیوٹرینو کسی بھی وقت کہی بھی آپ میں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ جب بھی ایٹمی مرکزے اکٹھے ہوتے ہیں (جیسے سورج میں) یا الگ ہو جاتے ہیں (جیسے ایٹمی ری ایکٹر میں)، وہ نیوٹرینو پیدا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک کیلا بھی نیوٹرینو کا اخراج کرتا ہے۔ وہ پھل میں پوٹاشیم کی قدرتی تابکاری سے آتے ہیں۔ ایک بار پیدا ہونے کے بعد، یہ بھوت ذرات شاذ ہی دوسرے مادے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں ۔نیوٹرینو کو طویل عرصے سے بغیر کمیت کے (ماس لیس massless) سمجھا جاتا تھا۔ جب تک کہ سائنسدانوں کو اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ ان کی کمیت (ماس) بہت کم ہے، کمزور چارج اور تقریباً غیر موجود ماس نے سائنسدانوں کے لیے ان کا مشاہدہ کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے۔  ان کا مشاہدہ صرف اس وقت کیا جا سکتا ہے جب وہ دوسرے ذرات کے ساتھ تعامل (interaction) کرتے ہیں۔ دوسرے ذرات کے ساتھ تعاملات بھی کبھی کبھار ہی واقع ہوتی ہیں۔ یوں ان کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے اسی وجہ سے یہ بھوت ذرات کہلاتےہیں۔ 

کائنات میں ہر جگہ نیوٹرینو کی موجودگی (بہتات)   سائنس دانوں کے لیے اس وجہ سے بھی ایک معمہ ہے کہ یہ طبیعیات کے قائم کردہ مروجہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ذرات کہاں سے آتے ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان ذرات نے بگ بینگ کے فوراً بعد ابتدائی کائنات میں کوئی کردار ادا کیا ہو گا۔لیکن یہ صرف ایک مفروضہ ہے، وہ ابھی تک کچھ بھی ثابت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نیوٹرینو کی صحیح تفہیم پراسرار کائناتی شعاعوں( جن کا نیوٹرینو پر مشتمل ہونے کا قیاس لگایا جاتا ہے) کی حقیقت کے ساتھ ساتھ متعدد سائنسی اسرار کو حل کرنے میں مدد کرے گی۔ محققین کا خیال ہے کہ نیوٹرینو کے ماخذ کو سمجھنے سے وہ کائناتی شعاعوں کی ابتداء کی وضاحت کر سکیں گے جو کائنات کی ابتدائی تخلیق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

بھوت ذرات شاذ و نادر ہی دوسرے ذرات کے ساتھ تعاملات کرتے ہیں۔بعض اوقات وہ پانی کے مالیکیولز کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ جب نیوٹرینو ذرات پانی یا برف میں سے گزرنے کے بعد “byproducts” بناتے ہیں تو یہ “muons” کی صورت روشنی یا چمک پیدا کرتے ہیں اور تب نیوٹرینو کی توانائی اور ماخذ کے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

اس وقت دنیا میں نیوٹرینو کا مطالعہ کرنے کے لیے سب سے بڑا ٹیلی سکوپ وسکونسن یونیورسٹی کی “آئسکیوب” ہے جو انٹارکٹک کی گہرائی میں واقع ہے۔ اس کے سینسر تقریبا ایک کیوبک کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ چین مغربی بحر الکاہل میں ایک بہت بڑا ٹیلی سکوپ “ٹرائڈنٹ” بنا رہا ہے جس کا سینسر” 5•7″ سات اعشاریہ پانچ کیوبک کلومیٹر تک پھیلا ہوگا۔ اس کا کام بھوت ذرات کا پتہ لگانا ہو گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا سائز اسے زیادہ نیوٹرینو کا پتہ لگانے اور اسے موجودہ زیر آب ٹیلی سکوپس کے مقابلے میں “10،000” دس ہزار گنا زیادہ حساس بنائے گا. سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور اس دہائی کے اندر اندر مکمل ہونے والی ہے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *