تنظیمِ نسلِ نو ہزارہ مغل … اسحاق محمدی

تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کے قیام کے ضمن میں مختلف دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن استاد غفور ربانی، معروف دانشور شادروان پروفیسر ناظر حسین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ “اس زمانے (1965ء) میں محلہ نچاری کیمپ میں ایک فٹبال کلب، تاج کلب کے نام سے قائم تھا جس کا دفتر، حاجی یعقوب علی انیس کی ایک دکان میں واقع تھا، جہاں اس کلب کے نوجوان ممبرز روز مرہ امور اور مسائل پر بھی تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے۔ انہی گفت و شنید کی نشستوں کے دوران انہیں انجمن فلاح و بہبود کی طرز پر ایک فلاحی ادارہ بنانے کا خیال آیا” (استاد ربانی ص 180)۔ اسکی تائید خود جناب غلام علی حیدری یوں کرتے ہیں کہ “ایک فٹبال کلب (تاج کلب) سے اس حد تک وابستہ ہوا کہ مجھے اس کلب کا صدر بنادیا گیا۔ آگے چل کر مزید کہتے ہیں کہ ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بچوں کو تعلیم دینے کیلئے ٹیوشن کلاسز کا اجراء کیا جائے۔ شروع میں ایک کمرہ پر مشتمل اس کلب سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا جو کمرہ جماعت بھی تھا اور دفتر بھی تھا۔ آگے چل کر مزید کہتے ہیں کہ 1969ء میں کراچی مجھے کمپٹرولر کے دفتر میں ملازمت مل گئی اور وہاں چلا گیا تاکہ ملازمت کے ساتھ ساتھ لاء کالج میں بھی داخلہ لے سکوں۔ جناب حیدری مزید کہتے ہیں کہ ون یونٹ ختم ہونے کی وجہ سے مجھے بلوچستان آنا پڑا۔ دوبارہ تنظیمی سرگرمیوں میں مشغول ہوا۔ 1970ء میں تنظیم نسل نو ہزارہ کی تشکیل ہوئی۔ شروع میں بارہ افراد پر مشتمل ممبر سازی ہوئی جن کے نام یہ ہیں:

غلام علی حیدری، غلام عباس، الطاف حسین، سید عاشق حسین، بوستان علی، عوض علی، سید مظفرشاہ، حاجی یعقوب علی انیس، کیپٹن عوض علی فٹبالر، حیدرعلی کارمل، سید محمد حسین، اور قربان علی” (کوثرعلی کوثر ص 88)۔
گویا تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی تشکیل 1970ء میں ہوئی ہے جو پاکستان میں عام انتخابات کا سال بھی تھا۔ عام انتخابات کے دوران آزاد امیدوار برائے پی بی-2، سردار محمد اسحاق خان کے مقابل، ہزارہ قوم کے چند ذیلی طوایف نے کیپٹن سلطان علی کو نیپ کی طرف سے میدان میں لا کر دراصل اس کی سرداری کو چیلینج کیا۔ اس طرح ہزارہ قوم سردار حامی اور سردار مخالف کیمپوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس تقسیم کی وجہ سے انتخابات میں دونوں امیدوار ہار گئے اور دونوں جلدی مرحوم بھی ہوگئے لیکن ہزارہ قوم میں قیادت کی ایک خلاء چھوڑ گئے۔ اب ایک قومی سربراہ کی بجائے ہر طایفہ کا ایک سربراہ میدان میں آتا گیا۔ ان کی اکثریت ناخواندہ یا نیم خواندہ نو دولتیوں پر مشتمل تھی جن میں گردوپیش کے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان تھا۔ اس اجتماعی و سیاسی خلاء میں نو تشکیل شدہ تنظیم نسل نو ھزارہ مغل میں پڑھے لکھے افراد کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی رہی۔ ابتداء میں تنظیم کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ ہزارہ کول مائینز کے محنت کش تک ان کو چندہ دیتے تھے۔ میر مرحوم چچا منشی نادرعلی جو ڈیگاری میں ٹھیکیدار دیدار ڈبل کے ساتھ کام کرتے تھے، ہر مہینہ جمع شدہ چندہ، تنظیم میں جمع کرا کر اس کی رسید اپنے دفتر میں محفوظ رکھتے تھے جس کا میں خود گواہ ہوں۔
یہی چند ابتدائی سال تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی مقبولیت کے عروج کا دور تھا۔ تنظیم بلڈنگ کو قومی مرکز کا درجہ حاصل تھا۔ قوم کے افراد اپنے روز مرہ مسائل جیسے پاسپورٹ، شناختی کارڈ، شفاخانہ، پولیس وغیرہ سے لے کر خاندانی مشکلات تک کے حل کیلئے تنظیم سے رجوع کرتے تھے۔ لیکن بعد از آں یہ خدمات بند کردی گئیں اور قومی تنظیم مسلسل بحرانوں کی زد میں رہی جس کی تفصیل کیلئے کئی دفتر چاہیئے۔ اس بابت استاد ربانی، پروفیسر ناظرحسین کے بقول دیگر خارجی عوامل اور ذاتی خصلتوں کے علاوہ، اندرونی عوامل میں ہر انتخابات میں کسی ایک امیدوار کی حمایت کو بھی قرار دیتے ہیں، جس سے باقی امیدواران اور ان کے حامی تنظیم کے مخالف ہوتے جاتے تھے (غفور ربانی ص182)۔
میرے خیال میں چند دیگر بیرونی عوامل کے علاوہ سابقہ چیرمئین غلام علی حیدری نے 6 جولائی 1985ء کے سانحہ کے دوران تنظیم کا مین گیٹ بند کروا کر اس عوامی دوری کو دو چند کردیا، علاوہ براین 90 کی دہائی کے اوائل سے حیدری صاحب کی طرف سے پہلے تنظیم بدری کا ایک طویل سلسلہ اور 1998ء کے بعد اس قومی مرکز کا دروازہ قوم پر مکمل بند کرنے اور آخر میں اس قومی مرکز کا اندرونی مسلہ، جمہوری اور آئینی طریقے کے بجائے عدالت کے ذریعے حل کرنے کے عمل نے تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی ساکھ کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا۔
ابتدائی دور میں ذوالفقار کے نام سے ایک گاہنامہ اور حیدری صاحب کے دور میں آواز نسل نو کے نام سے اردو زبان میں ایک اخبار اور کئی ماہنامے جیسے پیغام تنظیم، دیدگاہ نسل نو، چہل دختران، سیبید وغیرہ نکالے جاتے تھے لیکن سنجیدہ موضوعات اور پروفیشنل ازم کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی پبلیکیشن عوامی مقبولیت کی سند حاصل نہ کرسکی۔
فی زمانہ تنظیم کی قیادت نادرعلی ہزارہ کے پاس ہے اور زیادہ توجہ تنظیم کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں پر ہے۔ ماضی کی عوامی مقبولیت کو پانے کیلئے اغراض سے دور مخلصانہ اور ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات:
دفتر دوم، عبدالغفور ربانی کوئٹہ پاکستان 2012ء
تاریخ و ثقافت ہزارہ، کوثرعلی کوثر، کوئٹہ پاکستان، 2003ء

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *