جوانی مرگ ۔۔۔ علی رضا منگول

      ایک مطالعہ کے مطابق امریکہ میں انسانی اموات کی سب سے بڑی تعداد کی وجہ بیماریوں کے برعکس، طبی ٹیسٹوں یا علاج سے ہونے والی اموات سے متعلق ہیں۔ یعنی زیادہ تر اموات علاج اور اس کے رائج طریقوں سے ہوتی ہیں جو بیماری ہی نہیں ہوتے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان اموات کی وجوہات قدرتی بیماریاں نہیں بلکہ انسانوں کی نادانی یا منافع کے حصول کا لالچ ہے جو زیادہ تر دوا سازکمپنیوں کے مالکان کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح اگر ہم اپنی طرزِ زندگی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاشرے میں عام آدمی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو بھی ادویات اور خوراکوں کے صحیح استعمال کے بارے میں درست معلومات ہی نہیں ۔

      کسی زمانے میں انسان پر ایک دور ایسا بھی آتا تھا جسے قحط سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اس وقت انسان خوراک اور غذائی کمی کا شکار ہوتے تھے جس سے کثیر تعداد میں انسانوں کی موت واقع ہوتی تھی۔ مگر آج  انسان سائنس، زراعت اور ٹیکنیک کی ترقی کی بدولت خوراک سمیت بہت ساری چیزیں  ضرورت سے زیادہ پیدا کرنے پر قادر ہے، پھر بھی انسانوں کی بے وقت اموات کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں پھر وہی وجوہات کارفرما ہیں یعنی خوراک اور دواساز کمپنیوں کی دولت کمانے کا لالچ۔ البتہ آج خوراک کی کمی نہیں بلکہ اس کی بہتات، اضافی کھانے کی عادت اور تن آسانی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ آج یہی میرے اظہار خیال کی بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے آج ہم وقت سے قبل اپنی طبعی عمر پوری کرنے سے قبل جوانی میں ہی موت کا شکار ہورہے ہیں۔

      برصغیر پاک و ہند، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت ہمارا کھانا پکانے کا طریقہ ایک جیسا ہے، یعنی سب سے پہلے گھی کو گرم کرکے اس میں پیاز کو بھون دیا جاتا ہے۔ پھر اس میں ٹماٹر اور مصالے وغیرہ ڈال کر انہیں بھی تلنے کےبعد اس میں مطلوبہ سبزی، دال یا گوشت وغیرہ ڈال کر ڈھکن بند کرکے نرم ہونے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پکانے کے اس طرز میں گھی اور تیل کا استعمال وافر مقدار میں کیا جاتا ہے اور یہی واحد پکانے کا طریقہ ہمارے پاس ہے  جس کی وجہ سے ہمارے جسموں میں غیرضروری تیل اور گھی چربی کی صورت میں جمع ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارا وزن بڑھنے لگتا ہے جو ہمیں شوگر اور بلڈپریشر یا فشار خون میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ مگر ڈاکٹروں کے پاس جانے سے بھی ہمیں کوئی حتمی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ ڈاکٹر صاحبان ادویات کے بے دریغ استعمال کے علاوہ کوئی اور حل نہیں دے سکتے ، کیونکہ انہیں اس کے بغیر کچھ بتایا اور سکھایا ہی نہیں گیا ہے۔

      آج ہمارے معاشرے میں زیادہ تر بے وقت اور جوانی کی اموات کی بنیادی وجہ ہماری خوراک کے بارے میں عدم معلومات ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بسیارخوری اور زیادہ مرغن کھانوں کے استعمال سے وزن میں اضافہ ہونے کے ساتھ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے پاس ہماری ان بیماریوں کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے، صرف مہنگی ادویات کے نسخے تھامنے اور تلقین کرنے کے کہ اب ساری زندگی آپ نے ان  گولیوں کا ناغہ نہیں کرنا ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کچھ ہونے کے ڈر سے مریض ساری زندگی بلاوجہ معدے میں یہ کیمیکل انڈیلنے پر مجبور رہتے ہیں۔ جب کہ اگر ہم صرف اپنی خوراک کو سمجھتے ہوئے کہ ان میں کن چیزوں کی مقدار کیا ہے اور ان کا ہمارے جسموں میں جمع ہونے سے کونسی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں، احتیاط برتیں تو ان بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔

      گندم کی روٹی، دودھ اور دودھ والی چائے،تمام اقسام کے گوشت، پنیر، انڈے اور تیل یا گھی کے وافر مقدار کے استعمال سے ہمارا جسم اندرونی اور بیرونی طور پر عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس عدم توازن کے نتیجے میں ہمارا جسم مختلف چیزوں کی کمی بیشی کا شکار ہوجاتا ہے جو بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ ورزش کرنے کے لیے اکثر وقت نا ہونے یا سستی کی وجہ سے آرام طلبی بھی ان بیماریوں کی وجہ ہے۔ لیکن اگر ہم ورزش نا بھی کریں مگر خوراک کو سمجھتے ہوئے مناسب مقدار میں کھائیں تو بیماریوں اور جوانی کی موت یا قبل از وقت کی موت سے بچا جاسکتا ہے۔

علی رضا منگول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *