سیاست اور فتویٰ ۔۔۔ عارف چنگیزی

سیاست کا لغوی معنی حکومت، ملکی انتظام، سلطنت، دھمکی اور سزا ہے۔ مگر بالعموم پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں سیاست کا مطلب ایک دوسرے کو ننگا کرنے سے مراد لیا جاتا ہے۔ یعنی جو ایک دوسرے کو اچھی طرح سے ننگا کرے گا وہی بہترین سیاستدان سمجھا جائے گا۔ پہلے پہل مختلف سیاسی پارٹیاں ہی سیاست میں حصہ لیتی تھیں، مگر اب مذہبی پارٹیاں بھی بہت زور و شور سے حصہ لے رہی ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں جب مذہبی جماعتوں کو عرب ملکوں سے امداد ملنی شروع ہوئی تو ان کا سیاسی کردار مذہبی کردار سے زیادہ اہم ہوگیا۔ اب وہ محض سیاسی ہی بن کر رہ گئی ہیں اور ان کا مقصد دین کی تبلیغ یا دفاعِ مذہب کی بجائے اقتدار پر قبضہ کرنا یا اقتدار میں شراکت داری رہ گیا ہے۔ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں، مگر ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ملک کو مذہبی انداز سے بہتر ترقی دے سکتے ہیں۔ یوں اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لئے وہ مختلف حربے استعمال کرتے ہیں، جن میں ایک مذہبی کارڈ کا استعمال ہے، دوسرا مخالفین کے خلاف فتوے بازیاں اور تیسرا مختلف مقدس چیزوں کی قسم دلوانا ہے۔

مذہبی پارٹیاں اپنے انتخابی نشان کی نسبت کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر 1970ء میں جب انتخابات ہوئے تو ایک مذہبی پارٹی اپنے انتخابی نشان ”چابی“ کو جنت کی چابی قرار دے کر یہ کہتی تھی، کہ: ”جو شخص جنت کی چابی کو ووٹ دے گا وہ جنت میں جائے گا۔“ اسی بنا پر وہ پارٹی ژوب، لورالائی اور پشین کی نشستوں سے اکثریت سے جیتی تھی۔ حتیٰ کہ جب لوگوں نے عورت کے ووٹ ڈالنے کے بارے میں ان سے سوال کیا تھا تو جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ان بیچاریوں کا کیا قصور؟ کیا جنت عورتوں کے لئے نہیں ہے؟ انہیں بھی جنت میں جانے کی اجازت ہے۔ اسی طرح 2013ء کے الیکشن میں ایک اور مذہبی جماعت نے اپنے انتخابی نشان ”خیمہ“ کو امام حسین(ع) کے خیمے سے نسبت دے کر ووٹ مانگا اور الیکشن جیتا۔ جبکہ پاکستان کے باقی صوبوں اور شہروں سےانہیں ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی۔

مذہبی پارٹیوں کا دوسرا بڑا ہتھیار فتویٰ ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف فتوے جاری کرتے رہتے ہیں، کبھی انہیں کافر قرار دے کر عوام کو ان کے خلاف ورغلاتے ہیں تو کبھی فاشسٹ کے نام پر انہیں زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے مذہبی جماعتیں اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ ناجائز یا غلط چیز کو بھی اپنے لئے جائز اور درست قرار دیتی ہیں جبکہ مخالفین کی جائز اور درست چیز کو بھی ناجائز اور غلط کہنے سے نہیں کتراتیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مولانا صاحب نے کچھ سال پہلے مدرسے میں اعتکاف میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لئے فتوی جاری کیا کہ: ”اگر ان کی پارٹی کو ووٹ دینے کے لئے اعتکاف سے بھی اٹھنا پڑا تو تمہارا اعتکاف نہیں ٹوٹے گا لیکن اگر مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لئے جاؤگے تو تمہارا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔“ اسی طرح ایک اور مولوی سے جو عموماً فیس بک پر تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں، کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی رقم نیشنل سیونگ اکاؤنٹ میں رکھے تو اس سے ملنے والے فائدے/Interests کی رقم حلال ہوگی یا حرام؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: ”اگر انٹرسٹ کا آدھا حصہ مجتہدین (یعنی مولویوں) کو دیا جائے، تو حلال  ورنہ حرام ہوگا۔“

مذہبی پارٹیوں کا تیسرا ہتھیار مقدس مقامات یا پھر مقدس چیزوں کی قسم دلوانا ہے۔ مثال کے طور پر بعض مذہبی پارٹیاں مدینہ، کعبہ یا پھر قرآن پاک کی قسم دلوا کر ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ جبکہ بعض اپنے مرد ووٹروں کو ”علم حضرت عباس“ کی قسم دے کر ووٹ مانگتی ہیں جبکہ خواتین کو بی بی زہرا سلام علیہا کی چادر کا واسطہ دے کر ووٹ بٹورنے اور الیکشن جیتنے کا خواب دیکھتی ہیں۔

افسوس اس بات پر نہیں، کہ مذہبی لوگ دین کو اپنے فائدے کے لئے کیوں استعمال کرتے ہیں، بلکہ افسوس تو اس بات پر ہے کہ عوام ان کی مکاریوں سے واقف ہوکر بھی ان کے پیروکار بنتے چلے جا رہے ہیں۔

مذہبی پارٹیوں کی طرح سیاسی پارٹیاں بھی کسی نہ کسی چیز(مثلاً: قومیت اور ثقافت وغیرہ) کو بنیاد بناکر ووٹ مانگتی ہیں۔ لیکن عوام کو چاہیے کہ پارٹیوں کی کارگردگیوں کا موازنہ کریں اور خاص طور پر ان کے منشور کا بغور مطالعہ کرکے کسی ایک امیدوار کو ووٹ دیں۔

عارف چنگیزی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *