ہمارا معاشرہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار ۔۔۔ میر افضل خان طوری 

۔
اپنی خلقت کے روز اول سے لے کر آج تک انسان کو دو طرح کی بیماریوں کا سامنا رہا ہے۔ ایک کا تعلق اس کے جسم سے ہے جبکہ دوسری بیماریوں کا تعلق اس کی روح سے۔ جسمانی بیماریوں میں نزلہ، زکام، کھانسی، بدہضمی اور سر درد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مادی بیماریاں ہیں۔ ان کا زیادہ تر علاج مادی اشیاء سے ہی ممکن ہے۔ جبکہ حسد، بغض، کینہ، نفرت، جھوٹ، خود غرضی، خوف، چالبازی اور منافقت وغیرہ روحانی بیماریاں ہیں۔ ان کا علاج صرف علم، فہم اور ادراک سے ہی ممکن ہے۔
 دنیا کا ہر ایک حیوان شعوری طور پر یہ جانتا ہے کہ اس نے روزی کیسے پیدا کرنی ہے؟ خوراک اور نشو و نما کیلئے ان کی ضروریات زیست کیا ہیں؟ دوسرے خونخوار درندوں سے اپنی جان کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ اپنے رہنے کیلئے گھر کیسے بنانا ہے؟بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ ان کی پرورش کی ضروریات زندگی کیا ہیں؟ بچوں کی پرورش کیسے کرنی ہے؟ ان کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ موسمی سختیوں سے کیسے نمٹنا ہے؟ ناموافق حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟
بہت سے حیوانات اپنی نسلوں کیلئے مناسب منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ان کیلئے خوراک ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر موسمی تبدیلیوں کے مطابق اس خوراک کا درست استعمال کرتے ہیں۔
جانوروں میں اپنے بچوں سے محبت کرنے کی بے مثال قوت پائی جاتی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی حفاظت پر اپنی جان تک نچھاور کر دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بارش اور دیگر سختیوں سے بچانے کی تدابیر کرتے ہیں۔ انسان بھی انہی جانداروں کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ انسان کا شرف یہ ہے کہ وہ اپنے انجام سے با خبر ہوتا ہے۔ انسان جس چیز کو سب سے زیادہ یاد کرتا ہے اس کا نام “موت” ہے۔ یہ خصوصیت انسان کو دوسرے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ اگر کسی جانور کو صرف یہ شعور ہوتا کہ اس کو ایک دن مرنا بھی ہے تو وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا اور اس خوف سے وہ مر جاتا۔
انسان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں اور حیوانوں کے بچوں سے بھی پیار اور انس کا جذبہ رکھتا ہے۔ وہ ان کے دکھ اور درد کا بالکل اسی طرح احساس رکھتا ہے جس طرح وہ اپنے لئے رکھتا ہے۔
انسانوں کی تیسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے احساسات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ انسان کو قدرت نے بولنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ وہ اپنے احساسات کو الفاظ دے کر ان کا بر ملا اظہار کرسکتا ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے دوسروں تک اپنی دل کی بات پہنچا سکتا ہے۔ جبکہ ساتھ ہی وہ دوسروں کے الفاظ کو احساس کی شکل میں رسیو بھی کر سکتا ہے۔ اسی دوران اس کے چہرے پر بھی اس احساس کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ انسان کے جسمانی اعضاء اس احساس پر کسی نہ کسی شکل میں اپنا ردعمل دے رہے ہوتے ہیں۔
انسان کو قدرت نے جو تیسری بڑی قوت عطا کی ہے وہ خط و کتابت ہے۔ انسان اپنے الفاظ کو پیج پر لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ کو کتاب کی شکل میں محفوظ کرنے پر قادر ہے۔
انسان کی چوتھی بڑی قوت یہ ہے کہ وہ علم حاصل کرتا ہے۔ اس کو اللہ تعالی نے سوچھنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسانوں سے علم حاصل کرتا ہے۔ تحصیل علم میں انسان کے ارتقاء کا عمل صدیوں سے مسلسل جاری ہے۔
انسان نے زندگی کو بہتر بنانے اور خطرات سے اپنی حفاظت کیلئے حصول علم کو ہی اپنا سب سے بڑا ذریعہ بنایا ہے۔ جب سے انسان لکھنے اور پڑھنے کے قابل بنا ہے تب سے ان کے علمی ارتقاء کا عمل جاری ہے۔ انسان نے سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، لسانی، منطقی اور سائنسی میدان میں حیرت انگریز ترقی کی ہے۔
دنیا کے پیشتر ممالک نے سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی اقدار کو بہتر بنانے کیلئے تعلیمی اور تربیتی ادارے بنائے ہیں۔ وہاں پر انسانوں کو درست طرز عمل اپنانے اور اپنے رویوں کو بہتر سے بہترین بنانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مختلف ممالک میں انسان کی فکری اور اخلاقی تربیت کیلئے مختلف پروگراموں کو وضع کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر بے شمار کتابیں اور مقالے لکھے جا رہے ہیں۔
کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر ڈاکو، چور، لٹیرا اور قاتل نہیں ہوتا۔ معاشرتی تربیت اس کو ڈاکو، چور اور قاتل بنا دیتی ہے۔ جب تک بچوں اور نوجوانوں کو مثبت سوچنے اور مثبت طرز فکر اپنانے کی تربیت نہیں دی جاتی تب تک ان کو غلط کاموں سے روکنا نا ممکن ہوتا ہے۔
مٹی جتنی بھی زرخیز ہو، کھاد کی مقدار بھی مناسب ہو، موسم بھی موافق ہو، جب تک ہم اس کھیت میں اچھے تخم کے بیج نہیں بوئیں گے، جب تک ہم اس کھیت سے خود رو جڑی بوٹیوں کو نہیں نکالیں گے تب تک اس کھیت سے اچھی فصل کی امید کرنا بےکار ہوگا۔
پاکستان میں کھیت زرخیز ہیں ۔ کھاد بھی مناسب ہے۔ موسمی حالات بھی موافق ہیں لیکن ہم اس کھیت میں اچھے تخم کے بیج نہیں بو رہے ہیں اور اگر بیج بوتے بھی ہیں تو پھر وہ خود رو پودے اس فصل کو آگے بڑھنے ہی نہیں دے رہے۔
فرانسیسی دانشور ڈاکٹر کرل کہتا ہے کہ
“درحقیقت اکثر جرائم پیشہ افراد عام آدمیوں ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ اس میں سے بعض غیر معمولی حد تک ذہین بھی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشیالوجی کے ماہرین یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ ان سے زندانوں میں کیسا سلوک کیا جائے۔ ایسے راہزن اور سرمایہ دار جن کے جرائم کی تفصیلات سے اخبارات اور جرائد بھرے رہتے ہیں۔ نہایت زہین اور بسا اوقات ظاہری حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود اخلاق کی نعمت سے تہی دست ہوتے ہیں”
آج پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ مگر یہاں روز اخبارات اور جرائد اخلاقی پستی کے اندوہناک واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے بچوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچے، بچیاں اور خواتین جتنی آج غیر محفوظ ہیں اتنی پہلے کبھی نہیں تھیں۔ ہمارے مردے قبروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جس ملک میں کسی پاک دامن عورت کو قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہو، بچے مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیادتی کا نشانہ بنتے ہوں، ڈاکٹر کو مریض کے علاج کی فکر کم اور اپنی آمدنی کی فکر زیادہ ہو، استاد درندہ ہو، انجنیئر غیر قانونی کمیشن کو کار ثواپ سمجھتا ہو، ملک کے ہوٹلز میں گدھے اور کتوں کا گوشت کھلایا جا تا ہو، سیاستدان، جج اور وکیل بکتے ہوں، پولیس چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہو، جرنیل اور دیگر سرکاری افسران خود کو عوام کا خدمت گزار سمجھنے کی بجائے خدا سمجھتے ہوں، دوائیوں اور غزائی اشیاء میں ملاوٹ ہو رہی ہو، وہاں پر صرف تباہی اور بربادی کیا ارتقاء ہوتا ہے۔
ہم اپنے اوپر اخلاقیات کے تمام دروازے بند کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنی نوجوان نسل کے رویوں کو زہر آلود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہم سے محبت، مروت، خدمت، اخلاص، تدبر اور تفکر جیسی صفات روٹھ چکی ہیں۔
اس اخلاقی پستی کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم میں سے ہر فرد اس معاشرے کا جزو ہے۔ جب تک بحیثیت ایک جزو کے ہم معاشرتی اصلاح کا آغاز خود اپنی ذات سے نہیں کرتے تب تک پورے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔ جب ہم خود اپنی ذات کو بدلیں گے تب پورا معاشرہ خود بخود بدل جائے گا۔
میر افضل خان طوری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *