خواب خرگوش ۔۔۔ عباس حیدر

ہماری بد نصیبی دیکھئے کہ جس درد کو دوسروں کا درد کہہ کر کبھی ہم لاتعلق بن کر بیٹھے رہے، آج اس سے بھی بد تر درد، افسردگی اور غم انگیز لمحہ ہمارے ہی گریبان سے لپٹ چکا ہے۔ ہم نے کبھی جن لوگوں کے دکھ درد میں برابر شریک ہونے اور محض الفاظ  کا سہارا لینے کے بجائے عملی میدان میں اترنے کی کوشش یا زحمت ہی نہیں کی، آج انہی لوگوں کے آگے جھولی پھیلائے مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے “بہ دیگا دیدی بہ خود بیبین” اس طرح کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے جنہوں نے معاشرے کے ہر فرد، پیروجوان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اس سے برا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہر خالی پلاٹ میں چار یا پانچ افراد چادر اوڑھ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں بارہ سال سے لے کر ریش سفید بزرگ تک شامل دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے قریب سے گزرنے والے شخص کو ایک بدبو سی محسوس ہوتی ہے لیکن ناتوانی کے باعث وہ کچھ نہیں کر پاتا اور جذبات میں آکر انتظامیہ یا حلقہ ایم پی اے کو برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے۔ یاپھرخدا ان کو ہدایت دے کہہ کر وہ اس مسلے کو خدا کے سپرد کرکے اور خود کو بری الزمہ قراردے کر اپنی راہ لے لیتا ہے۔ ہم ان نشے کے عادی افراد سے محض دست بستہ التجا ہی کرسکتے ہیں کہ خدارا وہ کم سے کم محلوں سے دور جاکر کسی ویرانے میں اپنا نشہ کریں۔ 
 اگرایک طرف عوام منشیات فروشوں اور نشے کے عادی افراد سے تنگ ہیں تو دوسری طرف معززین قوم پراپرٹی مافیا بن کے رہ گئے ہیں اور خالی پلاٹوں میں بیٹھ کر نہ صرف خود کو تباہ کرنے کے عمل میں مصروف ہیں بلکہ خالی پلاٹ کے باہر کھڑے غریبوں کو نوچنے کے طریقے بھی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ علاقے میں پراپرٹی ڈیلرز کے دفاتر کی تعداد پرچون کی دکانوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ قوم خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ ہر چند تعلیم کے میدان میں ہم خود کو بہت ترقی یافتہ کہتے ہیں، لیکن در حقیقت تعلیم یافتہ تو کجا ہماری حالت پہلی جماعت میں فیل ہونے والوں جیسی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کاروبار، بجلی کے کنکشن لگوانا بزنس، گیس کے میٹر لگوانا آمدنی کا اچھا خاصا ذریعہ اور پانی کو آب زمزم بنا کر بیچنا ایک بہترین ذریعہ معاش بن چکا ہے۔ اس سے زیادہ اورکیا ترقی چاہئے!؟ عوام زندہ لاش بن چکے ہیں۔ ہمارے کان کن، موچی، مزدور اور باہر کے ملکوں میں خون پسینہ ایک کر کے  پیسے بھیجنے والے اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کو ایک آسودہ مستقبل دینے کے خواہاں ہیں۔ جب کہ یہاں ہمارے نوجوان  تعلیم چھوڑ کر منشیات اورعیش و نوش میں پیسہ لٹانے میں بالکل بھی دیر نہیں کرتے۔ فضول خرچی میں عورتیں پیر و جوان تقریباً پورے بلوچستان حتیٰ کہ پورے پاکستان میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ موبائل ہاتھ میں لئے ایسے گھوم رہی ہوتی ہیں جیسے وہ ان کی اپنی ایجاد ہے۔ 
ہم نے اپنے محلے کو ہی تجارت کا مرکز بنا رکھا ہے۔ یہ تجارت نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔  یہاں آنکھیں کسی گاہک کو ترستی رہتی ہیں۔ لیکن اگر یہی پیسہ شہر کے کسی کاروباری مرکز میں لگایا جائے تو اس سے مستقبل بھی محفوظ ہو سکتا ہے اور ماہوار آمدنی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ میرے والد صاحب ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ آپ طائفہ کے اجلاسوں میں ہمیشہ شرکت کریں کیونکہ انسان مختلف اخلاق رکھنے والوں سے ہی کچھ سیکھتا ہے۔ کاروباری مراکز میں کاروبار کا بھی یہی فائدہ ہے کہ وہاں مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف مزاج کے لوگوں سے مل کر بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے ہی انسان تہذیب یافتہ کہلائے کا مستحق بنتا ہے۔ 
عباس حیدر
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *