لینن یونیورسٹی تاجیکستان شعبہ تاریخ کے اپنے دور کے سربراہ، پروفیسر ل- تیمورخانوف کی کتاب “ہزارہ ہا” (دی ہزاراز) جو فارسی میں تاریخ ملی ہزارہ اور اردو میں “تاریخ ہزارہ مغل” کے ناموں سے چھپی ہے کا شمار ہزارہ تاریخ کی انتہائی اہم اور کلیدی کتابوں میں ہوتی ہے۔ سال 1980ء کے دوران تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی طرف سے علمدار روڑ اور اس کے قریبی ہزارہ نشین علاقوں میں بینرز کی صورت میں یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ عنقریب ہزارہ تاریخ، سرزمین اور بطور خاص امیر کابل عبدالرحمان کے ہاتھوں ہزارہ نسل کشی سے متعلق ایک کتاب کی اشاعت ہورہی ہے۔ اسی طرح کا ایک بینر امام بارگاہ ناصرآباد کے سامنے انورخان اور حاجی سنگی کی گلی کے نکڑ پر بھی آویزاں تھا۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ اس کی کوئی تقریب رونمائی ہوئی کہ نہیں۔ اس وقت میری فارسی اتنی اچھی نہیں تھی اور نہ ہی اسے خریدنے کی استطاعت تھی۔ سو بات آئی گئی ہوگئی۔ آگے چل کر جب میرا گورنمنٹ سائنس کالج میں داخلہ ہوگیا اور میں ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ممبر بنا اور اس کے دفتر واقع بالائی منزل تنظیم بلڈنگ میں آمد و رفت شروع ہوگئی تب فیڈریشن کی لائبریری میں، اس معروف کتاب کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کتاب کے تعارفی پیج پر معلومات اسطرح دی گئی تھیں جو بعد میں نادرست یعنی غلط ثابت ہوئیں :
مولف و مترجم :جناب عزیزطغیان
تہیہ کنندہ: حیدرعلی
ناشر : تنظیم نسل نو ہزارہ مغل شارع علمدار کوئٹہ پاکستان
قیمت: 35 روپے
کتابت: عزیز جان کوئٹہ
یعنی اس ایڈیشن میں اصلی مصنف تیمورخانوف کا نام ہی نہیں لکھا گیاتھا اور ساتھ ہی کتاب ٹائٹل میں بھی تبدیلی لائی گئی تھی۔ اس غلطی کا ذمہ دار تنظیم، نہیں بلکہ شاید دیگر دو افراد تھے، ایک تہیہ کنندہ شادروان حیدرعلی اور دوسرا اس کی ایڈیٹینگ اور پروف ریڈنگ کرنے والا محمدہاشم خان مالستانی (تفصیل آگے)۔
غالباً 1988ء کے دوران مجھے پتہ چلا کہ جناب حسن رضا چنگیزی اپنے شوق و ذوق پر اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کررہے ہیں اور ترجمہ مکمل کرنے کے بعد چنگیزی صاحب نے اپنی جیب سے اس کی کمپوزنگ بھی شروع کرائی ہے، لیکن بعض سیاسی مسائل پر تنظیم کے اس وقت کے چیئرمین غلام علی حیدری سے اختلافات کی وجہ سے ایچ ایس ایف کی تنظیم بدری کا حکم صادر ہوا اور فیڈریشن روڑ پر آگئی۔ خیر جیسے تیسے کرکے دفتر کے لئے جگہ ڈھونڈی اور حسب سابق اسی جوش اور جذبے سے میدان عمل میں ڈٹے رہے۔ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے بعد ابھی ہم طباعت کے مرحلہ میں تھے کہ حیدری صاحب کا پیغام آیا کہ اس کتاب کی چھپائی اور فروخت کے جملہ حقوق تنظیم کے پاس ہیں اس لئے ہم یعنی حیدری صاحب اس کے خلاف کورٹ جائیں گے۔ ہم نے اپنے طورپر کئی دوست وکلاء سے بات کی اور قانونی رائے مانگی تو ان کی فائنڈنگ واضح تھی کہ چونکہ اس کتاب کا اصل مصنف شادروان تیمورخانوف اور مترجم (اس وقت تک) شادروان عزیز طغیان دونوں نے چونکہ کسی فرد یا ادارہ کو تحریری طور پر اس کے حقوق تفویض نہیں کئے ہیں لہٰذاوہ کسی طور اس کی ملکیت کا دعوا نہیں کرسکتے لاس لیے آپ لوگ بے فکر ہوکر اس کی طباعت کرسکتے ہیں، کوئی قانونی موو ہوئی تو ہم بلا معاوضہ آپ لوگوں کی معاونت کریں گے۔ پیش بندی کے طورپر ہم نے اس کتاب کا ایک خطی نسخہ اور کابل یونیورسٹی کی طباعت شدہ ایک کاپی تیار رکھی تھی، جس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ مئی 1992ء میں ہم نے موسسہ فرہنگی ہزارہ کے زیر اہتمام اسکی طباعت کا اہتمام کیا جس کے اخراجات معروف ہزارہ فرزند، شادروان حسین افعانی نے اٹھائے۔ اردو اشاعت میں اگرچہ مصنف کا نام تیمورخانوف لکھا گیا تھا جبکہ فارسی مترجم کے طورپر عزیز طغیان کا ہی نام درج تھا۔ حالیہ سالوں میں اس کی ایک طباعت ایران میں جب کہ ایک اور طباعت کابل میں ہوئی ہےجن پرمیں مترجم کے طورپر عزیز طغیان کا نام درج ہے جوکہ درست نہیں۔
حالیہ دنوں میں اس معروف کتاب کے فارسی میں ترجمہ اور طباعت سے متعلق استاد خالق آزاداور شادروان حسین نائل نے کافی فرسٹ ہینڈ معلومات دی ہیں جو اس طرح ہیں۔
الف- عبدالخالق آزاد
استاد آزاد کے مطابق شادروان عزیز طغیان نے اپنے دورہ کوئٹہ پاکستان کے دوران غالباً اپناایک قلمی نسخہ شادروان حیدرعلی المعروف حیدر کارمل کے حوالے کیا تھا۔ 1979ء میں، عزیز طغیان کی ناگہانی موت کے چند سال بعد، کارمل مرحوم قریبی دوستوں کے اصرار پر اسکی طباعت پر راضی ہوئے جن میں ایک استاد ہاشم مالستانی بھی تھے۔ یاد رہے کہ اندریں بابت استاد آزاد نے 13 جنوری 2025ء کو قدرے تفصل سے اپنے فیس بیک پیج پر لکھا ہے۔ ممکن ہے ان سب دوستوں کو کتاب کے اصل مصنف و مترجم کے بارہ میں کوئی معلومات نہیں تھی۔ یوں یہ غلطی سرزد ہوئی جو آگے چل کر اب تک تکرار ہوتی رہی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ لینن یونیورسٹی تاجیکستان شعبہ تاریخ کے اپنے دور کے سربراہ پروفیسر ل- تیمورخانوف کی کتاب کا اصل نام “ہزارہ ہا” “ہزاراز” ہے۔
ب- حسین نائل
استاد نائل کے مطابق
“تیمورخانوف کی روسی زبان میں لکھی یہ کتاب میرے پاس تھی۔ 1974-1975ء کے دوران ایک نوجوان ہزارہ انجنیئرعبدالحسین یاسا سے شناسای ہوئی جو سابقہ سوویت یونین سے فارغ التحصیل تھا اور رشئین زبان پرمکمل عبور رکھتاتھا۔ میں نے اس کتاب کافارسی میں ترجمہ اسی نوجوان انجنیئر سے کرانے کا سوچاجو اچھا اور بھروسے والا فرد تھا۔ میں نے ابتداء میں ایک اور پرجوش سیاسی کارکن اور ہزارہ تاریخ سے شغف رکھنے والے نوجوان عزیز طغیان سے اس بابت بات کی، وہ بھی بخوشی راضی ہوا۔ یوں ایک دن یہ تجویز لےکر ہم دونوں انجنیئرعبدالحسین یاسا کے پاس گئے۔ وہ بھی راضی ہوا۔ کافی بات چیت کے بعد یہ طے ہوا کہ انجنیئر یاسا روسی زبان سے فارسی میں ترجمہ کرکے ابتدائی مسودہ میرے حوالے کریں گےاور میں ضروری ایڈیٹنگ کرکے عزیز طغیان کے حوالے کردوں گا۔ چونکہ طغیان، کابل یونیورسٹی شعبہ تاریخ و جغرافیہ کا طالبعلم تھا وہ مزید اس میں بہتری لاکر کاپیاں بناتے جائیں گے۔ 1976ء کے دوران چھ مہینے کے اندراندر تمام کام بخوبی پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کی کم از کم ایک ایک فائنل کاپی ہم تینوں کے پاس آگئی۔ اس دوران عزیز طغیان اپنے آرگنائزیشن کے کاموں کے سلسلے میں پاکستان بھی گیا لیکن اس نے تیمورخانوف کی کتاب سے متعلق مجھے اور انجنیئر یاسا سے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کتاب کوئٹہ سے عزیز طغیان کے نام سے چھپ چکی ہے (سرزمین و رجال ہزارہ جات صفحات 290-289)۔ گویا تیمور خانوف کی اس معروف کتاب کا اصل مترجم انجنیئرعبدالحسین یاسا اور معاونین کے طورپر شادروان حسین نائل اور شادروان عزیز طغیان تھے یعنی یہ ایک تین رکنی ٹیم کی کاوشوں کا ثمر تھا۔ اب اس کتاب کا حقیقی تعارف یوں بنتا ہے:
نام کتاب: ہزارہ ہا
مصنف :ل تیمورخانوف
مترجم فارسی: انجنیئرعبدالحسین یاسا
معاونین و ایڈیٹنگ :حسین نائل و عزیز طغیان
- تیمور خانوف کی کتاب( ہزارہ ہا) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 18/01/2025
- ہزارہ پائنیر یا لشکر ہزارہ 1904-1933ء … اسحاق محمدی - 18/12/2024
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024