انسانی معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے۔ معاشرے کا ہر ایک فرد اپنی جگہ پر ذمہ دار ہوتا ہے۔ فرد کی یہ ذمہ داری اس کی ذاتی اور اجتماعی نوعیت کی ہوتی ہے اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک فرد اگر چاہے تو پورے معاشرتی نظام کو بدل سکتا ہے اور اگر چاہے تو پورے معاشرتی نظام کو برباد بھی کرسکتا ہے۔
جس معاشرے میں روزانہ بچوں، بچیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی روز کا معمول ہو۔ جس معاشرے کا معلم خود بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہو اس معاشرے کے دوسرے افراد سے اچھائی کی توقع رکھنا بیکار ہے۔
ہمارے سکول، کالج، مدرسے اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا کردار جب تک مثالی نہیں ہوگا اس وقت تک ہم ایک باکردار اور بااخلاق قوم پیدا نہیں کرسکتے۔
ہم میں سے ہر شخص اتنا تو جانتا ہے کہ ہمارے لئے رحمت للعالمین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نمونہ عمل ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی کا بچہ، بچی اور عورت محفوظ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود دوسروں کے کفر کی تلاش میں نکلے ہیں مگر خود اپنے کفر کو بھول گئے ہیں۔ ہم دوسروں کی اصلاح تو چاہتے ہیں ہم دوسروں کو اچھا مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں مگر خود اپنی اصلاح کرنے سے غافل ہیں۔
ہمارے اندر کا شیطان اتنا قوی اور طاقتور ہوچکا ہے کہ ہم نے غلط کام کرنے کے لئے مسجد اور مدرسے کا لحاظ تک کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جو معلم قرآن مجید گود میں رکھ کر مسجد میں بچوں کے ساتھ نازیبا حرکات کرتا ہو اس شخص سے کسی قسم کی خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
کیا اسلام ہمیں اس قسم کی غیراخلاقی حرکات کی اجازت دیتا ہے؟ گزشتہ دنوں گجر پورہ میں رات کے وقت موٹروے پر جس خاتون کی عزت بچوں کے سامنے لوٹ لی گئی کیا کسی مسلک کی مذہبی تنظیم نے اس پر کوئی ریلی نکالی؟……نہیں! اور آج تک مسلسل اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن ہر مسلک کے مولوی کو صرف اپنے ذاتی مفاد کی پڑی ہے۔
اگر یہ سب مل کر اسلامی اقدار کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرتے اور پورے ملک میں امن محبت، رواداری اور خوت کا پیغام اپنے اپنے منبروں سے دیتے تو آج یہ ملک امن کا گہوارہ ہوتا اور اس ملک کی نوجوان نسل کو جدید اسلامی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا۔ اس ملک میں بچوں، بچیوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے عناصر کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا اور کوئی بھی شخص ایسے گھناؤنے فعل کو انجام سے پہلے سو دفعہ سوچتا۔
ہماری پولیس تو صرف اس بات کے انتظار میں ہوتی ہے کہ کسی طرح کوئی واقعہ رونما ہو؛ تو تب وہ وہاں پر جائے۔ یعنی واقعہ رونما ہونے سے پہلے اقدامات کرنا شاید ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہی نہیں۔
بحیثیت قوم ہم خود ہی پولیس سمیت اپنے اداروں کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہوں گے ہمارا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ہم میں سے ہر فرد ذمہ دار ہے اور ہمیں ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
جب تک بحیثیت فرد ہم احساس ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے، جب تک بحیثیت ایک فرد ہم اس معاشرے کی تباہی و بربادی کی پوری ذمہ داری قبول نہیں کریں گے، جب تک بحیثیت ایک فرد ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے، تب تک ہمارے معاشرے کا درست ہونا محال ہے اور اسی طرح ہماری گلیوں اور محلوں میں اسلام کا خون ہوتا رہے گا۔
بقول علامہ محمد اقبال:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Latest posts by میر افضل خان طوری (see all)