ویسے تو درد ایک بری چیز سمجھا جاتا ہے۔ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ درد کو خود سے دور رکھے۔ اگر ہم حقیقت میں دیکھیں تو درد ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں جسم کے اندر کسی بیماری کے ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ مثلا اگر ہمارے جسم کے کسی حصے میں کوئی مسلہ درپیش ہو تو درد ہمیں اس مسلے کا پتا دیتا ہے۔ وہ ہمیں اس بیماری یا مرض سے آگاہ کرنے کا وسیلہ ہوتا ے۔ درد ہمیں اس بیماری کا احساس دلاتا ہے۔ جب ہم درد کو محسوس کرتے ہیں تو پھر ہم جسمانی بیماری کا علاج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے پتہ چلا کہ درد بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ بری چیز دراصل وہ بیماری ہے جو ہمارے جسم کو لاحق ہو گئی ہے۔ اگرچہ درد انسان کیلئے تکلیف کا باعث ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ہمیں اس بیماری، زخم یا خرابی سے آگاہ کرتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ درد خود آگہی کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ درد مسلے کی خبرگیری اور نشاندہی کرتا ہے۔ درد انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس بیماری کی فکر کرے اور وقت پر اس کا علاج کرے۔ یہ تو ہے انسان کا جسمانی درد جو جانوروں اور انسانوں میں مشترکہ طور پر پایا جاتا ہے۔
جانوروں اور انسانوں میں بہت بڑا فرق درد کے محسوس کرنے کا ہے۔ جانور صرف اپنا درد محسوس کرتا ہے۔ جبکہ انسان دوسرے انسانوں اور جانوروں کا درد بھی محسوس کر سکتا ہے۔ درد آشنائی انسانیت کا بنیادی وصف ہے۔ جو زیادہ درد آشنا ہے وہ زیادہ باخبر اور آگاہ ہے۔
مولانا روم اپنے مثنوی میں اس کا یوں ذکر کرتا ہے: ”اے طالب حق تو اس حقیقت کو سمجھ لے کہ ایک درد آشنا ہی حق کو پاتا ہے۔ جو زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ درد آشنا اور جو زیادہ با خبر ہے وہ زیادہ پریشان ہے۔“
شہید مطہری فرماتے ہیں کہ: ”جو شخص دنیا میں زیادہ صاحب درد ہو اور ایسا درد محسوس کرے جو دوسرے محسوس نہیں کرتے تو وہ اسی نسبت سے زیادہ جاننے والا اور بیدار ہوتا ہے۔“
لہٰذا جاہل اور بے عقل وہی ہوگا جس میں درد محسوس کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ ہر درد رکھنے والا بے چین اور پریشان ہوگا اور ہر جاہل و احمق ہمہ وقت موج مستیوں میں مشغول رہے گا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسرے انسانوں اور معاشرے کا درد اپنے دل میں کبھی محسوس نہیں کرتا۔ فرض کیجئے اگر کسی شخص کے جسم میں کوئی بیماری چل رہی ہو مگر وہ اس کے درد کو محسوس کرنے سے قاصر رہے تو وہ اپنی بیماری کا بروقت علاج نہیں کر سکے گا۔ وہ بیماری اچانک اس شخص کیلئے مہلک ثابت ہوگی اور اس کی موت کا باعث بن سکتی ہے۔
اسی طرح ایک جاہل اور احمق شخص اپنے ذاتی اور معاشرتی مسائل سے آگاہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی موچ مستیوں میں مگن رہتا ہے۔ تو ان کے یہ مسائل اچانک ان کو کسی بہت بڑے المیے سے دوچار کر دیتے ہیں۔ اس طرح ایک احمق و جاہل شخص معمولی سی غفلت کی وجہ سے خود کو اور معاشرے کو بہت بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ”ہر شخص کی سچی دوست اس کی عقل اور باخبری ہے۔ ہر شخص کا اصل دشمن اس کی جہالت اور نادانی ہے۔“
لہٰذا درد رکھنا اور درد کا احساس رکھنا اچھی بات ہے۔ درد کا احساس انسانی اقدار کو بلندی عطا کرتا ہے۔ درد کے احساس سے ہی معاشرتی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ درد کا احساس اگر انسان میں نہ ہوتا، تو وہ جانوروں کی صف میں ہوتا۔
شہیدمطہری فرماتے ہیں کہ: ”انسان اس لئے فرشتے پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ فرشتہ بے درد ہے اور انسان درد رکھتا ہے۔