رہبر کی ضرورت
تحریر: میر افضل خان طوری
کسی اندھیری رات میں انسان کے پاس اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یاتو خود اپنی روشنی کا بندوبست کرکے اپنی منزل کا سفر اختیار کرے۔ یا پھر کسی اور کے جلائے چراغ کی روشنی میں اپنی منزل مقصود تک کا سفر طے کرنا شروع کردے۔
رہنما یا رہبر ایسی شخصیت کا نام ہے جو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں داخل کرتا ہے۔ ایسی شخصیت جو کائنات کے راستوں کی طرف انسانوں کی رہنمائی کرتا ہو۔
رہبر کی سب سے بنیادی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کے دکھ اور درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر رہبر میں درد دل نہ ہو تو رہزن کہلایا جاتا ہے۔ جو خود کسی سفر میں ہی نہ ہو اس شخص کو قافلے کے لٹ جانے کا کوئی ملال نہیں ہوتا۔ رہبر اس شخصیت کو کہتے ہیں جو منزل بہ منزل ساتھ دیتا رہتا ہو۔
جس طرح ہر لفظ کا ایک ظاہری وجود ہوتا ہے اور ایک معنوی وجود ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کا ایک ظاہری وجود ہوتا ہے اور ایک باطنی وجود ہوتا ہے۔ ہر لفظ انسان کے باطن پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ رہبر کے الفاظ انسانوں کے نفوس کو عالم ظاہر سے عالم باطن پر متمکن کر دیتے ہیں۔ رہبر انسانوں کو اپنے باطن کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ رہبر کسی اقتدار کا بھوکا نہیں ہوتا۔ مگر پھر بھی وہ بہت بڑی سلطنت قائم کر دیتا ہے۔ ان کی سلطنت دنیاوی حدود و قیود کی پابند نہیں ہوتی۔ ان کی سلطنت کسی مادی دنیا پر قائم نہیں ہوتی۔ انکی سلطنت کو دنیا کی کوئی طاقت میزائیل یا ایٹم بم سے تباہ نہیں کر سکتی۔ وہ اپنی سلطنت کو قائم و دائم رکھنے کیلئے کسی سپر پاور کے پاؤں نہیں پکڑتا۔ انکی سلطنت ہمیشہ لا زوال ہوتی ہے کیونکہ وہ سلطنت انسانوں کے دلوں پر قائم کی جاتی ہے۔
جس طرح ہر لفظ کا اپنے معنی کے ساتھ ایک بنیادی تعلق ہوتا ہے اسی طرح ہر ظاہر کی اپنے باطن کے ساتھ خاص قسم کی وابستگی ہوتی ہے۔ جہان معنی میں سفر کرنے والی علامتوں کو سنگ میل سمجھتے ہیں۔ ہر علامت ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ کبھی کبھار بہت سی علامات رہبر بن جاتی ہیں ۔
جہاں علامتیں مسخ کر دیئے جاتے ہیں وہاں پر قافلے گمراہ ہوجاتے ہیں۔
رہبر اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے۔ کردار ہی شجر افکار انسانی کا پھل ہوتا ہے۔ جس درخت کا پھل میٹھا ہوتا ہے اس کے حسب و نسب کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔