اِک ناگہاں آندھی چلی ۔۔۔ عباس حیدر

اِک ناگہاں آندھی چلی

تحریر: عباس حیدر

جس زمانے میں ہم سکول یا کالج جاتے تھے، ساری دنیا سے بے نیاز بڑی بے فکری سے کبھی بس تو کبھی نیم جان سائیکل کے ذریعے جایا کرتے تھے۔ نہ کوئی روکنے والا اور نہ ہی کوئی ٹوکنے والا موجود ہوتا۔ جہاں دل چاہتا ہم وہاں جایا کرتے تھے۔ کبھی دوستوں کے ساتھ، تو کبھی اکیلے پورے کوئٹہ کا چکر لگا آتے۔ ہمیں نہ تو کسی قسم کا خوف محسوس ہوتا اور نہ ہی کوئی انجانا ڈر۔ مختلف زبان بولنے والوں سے ہماری دوستیاں تھیں۔ حتیٰ کہ ہم ان کے محلوں میں جاتے اور وہ ہمارے محلوں میں بے خوف و خطر اور بے دھڑک آجاتے۔ آن زمان ہم سے کسی قسم کی بازپرس نہیں ہوتی تھی۔ ایک شہر کو خوشحال اور آباد رکھنے کا یہی تقاضا ہے کہ اس شہر کے تمام باسی رواداری کے ساتھ بھائی چارے کے فضا میں گھل مل کر رہیں۔ پرکیف لمحات گذارتے ہماری عمروں اور ہمارے قدوں میں ایک ساتھ اضافے ہو رہے تھے۔ آپس میں ہماری گفتگو عموماً عاجزانہ ہوتی تھی۔ بزرگوں کی عزت، لحاظ و احترام کو ہم سب ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے۔ نان اور پیاز سے مہمانوں اور دوستوں کی تواضع کرتے تھے، جسے بڑے خلوص اور تشکرانہ انداز میں قبول کرکے اکھٹے نوشِ جان کیا کرتے (نان و پیاز قاش واز)۔ نہ میزبانی کی شکایت اور نہ ہی بوقلمونی اور میزبان کی اوقات سے بیشتر کھانوں کی فرمائش ہوتی۔ اس دور کے زن و مرد قناعت پسند تھے اس لیے ان کی زندگیاں پُرمسرت تھیں۔ زمانہ طالب علمی میں اپنے دوستوں (جو غیر ہزارہ تھے) سے ہم بہت کچھ سیکھتے رہیں اور وہ ہم سے۔ میری نظر میں، اگر کسی شہر میں ایک ہی قوم آباد ہو، وہاں قدم نہیں رکھنا چاہئیے۔ کیونکہ وہ شہر خرافات کا گڑھ ہی ہوتا ہے اور شہرِ خرافات سے ہمیں سیکھنے کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس مخلوط قومیتوں سے آباد اور مختلف زبانیں بولنے والے مثالی شہروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ کیونکہ مخلوط قومیتوں والے شہر میں مسابقت کا رجحان زیادہ اور عزت نفس کے مجروح ہونے کا امکان تقریباً ناپید ہوتا ہے۔

معاشرے کے افراد “خاص طور پر نوجوانوں” میں مختلف صحتمندانہ کھیلوں کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے تمام سال باکسنگ، فٹبال اور کرکٹ وغیرہ کے ٹورنامنٹس منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ جو بغیر کسی تعصب، بد نیتی اور بداخلاقی کے شائقین جوق در جوق (گراونڈ خواہ جہاں کہیں اور جس کسی علاقے میں ہوں) میچ دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ سالہا سال سے یہی دستور ہے کہ دوسرے صوبوں کی ٹیمیں اپنا جوہر دکھانے کوئٹہ کا رُخ کرتی ہیں اور یہاں کے لوکل ٹیموں سے بڑے شوق سے کھیلتی آرہی ہیں۔ اس دوران شائقین بھی بلاتعصبِ رنگ و نسل کھلاڑیوں کی بہترین کارکردگی پر خوب داد دیتے ہیں۔ اس مرحلے پر ایک مداح یہ بھول جاتا ہے، کہ جس کھلاڑی کو وہ داد دے رہا ہوتا ہے، وہ بلوچ ہے، پشتون ہے یا ہزارہ۔ اس نہج پر عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے، کہ کھیل کا میدان وہ واحد پلیٹ فارم ہے، جہاں ہر کوئی اپنی تعصب کی عینک اپنے گھر چھوڑآتا ہے۔

خوشیوں میں مگن شہریوں کی زندگیاں معمول سے بسر ہو رہی تھیں، کہ۔۔۔۔اچانک۔۔۔۔ایک کالی آندھی چلی۔ جس نے ہمارے پرامن شہر کو بغض، کینہ و عداوت، نااتفاقی اور نفرت کی آگ میں جھونک دیا اور کافر!۔۔۔۔۔۔واجب القتل! کے مہیب نعروں والی فضا اپنے پیچھے چھوڑ کر چلی گئی جبکہ بدلے میں ہم سے، ہماری محبت، امن، بھائی چارگی کی فضا اور عزت و احترام سے بھرپور ماحول لوٹ کر فرار ہو گئی۔ ان دنوں سے آج تک کوئٹہ ایک خونی شہر بن کر رہ گیا ہے۔ خوف کے اس گردوغبار نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کوئی بھی انسان یہاں سکھ کا سانس نہیں لے سکتا۔ سیاحت کے دلدادہ باقی صوبوں اور غیرملکی سیاحوں نے اپنے راستے بدل دئیے ہیں۔ کاروباری اور تاجر حضرات کا کہنا ہے، کہ ہماری آمدن کا پچاس فیصد %50 انحصار انہی سیاحوں پر تھا (جو اس خونی شہر کے دروازے کو اپنے لیے مسدود مان چکے ہیں)۔ اس لیے آج ہمارا کاروبار تباہی سے دوچار ہے۔ جس وقت ہزارہ قوم کے ہر گھر سے لاشے اٹھنا شروع ہوئے تو بعض ناعاقبت اندیش یہی کہتے تھے، کہ “ہزارہ قتل ہوا ہے کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے”۔ آج اسی آگ نے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ان کے گھر بھی اس سے محفوظ نہیں جنہوں نے ہمارے قتلِ عام پر شادیانے بجائے تھے یا خاموشی اختیار کی تھی۔

اب ہم کس کس شہید کی برسی منائے؟ کونسا ایسا دن ہوگا جس میں ہمارے جوان بھرے بازاروں میں خاک اور خون میں غلطان نہ ہوئے ہوں؟ ایسی کوئی تاریخ ہمیں کلینڈروں میں نہیں ملے گی۔

22 جون کو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے ہزارگی ثقافت کا دن تاخیر کے ساتھ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جس پر بعض ناسمجھ افراد اعتراضات کے پل باندھ رہے ہیں۔ کبھی شہدا کے چہلم، تو کبھی کسی خاص شہید  کی برسی کی تاویل پیش کر رہے ہیں۔ ان معترض افراد سے میری درخواست ہے کہ پہلے کلینڈروں سے کوئی ایسا دن یا تاریخ نکال لائیں جس میں کسی ہزارہ فرد یا افراد کی ٹارگٹ کلنگ نہ ہوئی ہو یا بم دھماکوں کے زخمی افراد نہ چل بسے ہوں؟ اگر آپ برا نہ مانیں تو خوشیوں کے بہانے تلاش کرنا ہمارا حق ہے جو ہمارے جسمانی اور روحانی تسکین کے لیے ضروری ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ ایچ ڈی پی ووٹ بٹورنے کے لئے کلچر ڈے کا ڈرامہ رچا رہی ہے۔ ان سے میرا سوال ہے۔ “کیا آپ نے 19 مئی کے دن کو ‘ہزارگی کلچر ڈے’ کے نام پر قبول کیا ہے یا نہیں؟ اگر آپ نے اس دن کو ‘ہزارگی کلچر ڈے’ کے نام سے قبولا ہے تو یہ پہل آپ یا آپ کی جماعت نے کیوں نہیں کی؟ “اب اگر اس ذمہ داری کا بیڑا ہزارگی جماعت ‘ایچ ڈی پی’ نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہے، تو آپ کو تکلیف کاہے کی؟ جو ہماری اور تمہاری شناخت کا برملا باعث ہے”۔

عباس حیدر
0 Shares

One thought on “اِک ناگہاں آندھی چلی ۔۔۔ عباس حیدر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *