بھرم ۔۔۔ زہرا علی

ہوا میں خنکی کا فی بڑھ گئی تھی ،  وہ رکشے میں بیٹھا کسی  متوقع  مسافر کے انتظار میں سردی سے سکڑ رہا تھا۔  ساتھ ساتھ کانوں میں  ہیڈ  فون لگائے  گانوں کی دھن پر  باہر کے سرد موسم سے لڑنے کی ناکام کوشش بھی کر رہا تھا۔  اس  مصروف رکشہ اسٹینڈ پر شازونادر  ہی کوئی   خالی رکشہ مل پاتا، لیکن شاید آج سردی کے سبب لوگ گھروں میں ہی دبک کر چھپ گئے تھے۔  کافی انتظار کے بعد رکشے کے باہر رکتے قدموں نے  اس کا  دھیان گانوں سے ہٹا کر اپنی طرف کر لیا، وہ  غالباً  کسی  لڑکی یا خاتون   کی آواز تھی ۔ کالے رنگ کے خوبصورت  اور نفیس  سینڈل میں نہایت ہی  خوبصورت اورگورے پیر کسی انتہائی کالی رات میں  پورے  چاند کی روشنی کا منظر پیش کر رہے تھے۔ اتنے خوبصورت اور  دلکش  پیر اس نے واقعی کبھی نہیں دیکھے تھے، نازکی   دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ شاید ہی وہ پیر کبھی زمین پر پڑے ہوں گے۔

وہ  اس منظر میں اس قدر کھو گیا   کہ  ایک لمحے کے لئے آس پاس کے  ماحول سے  ہی  بیگانہ  ہو  گیا۔     نا دانستگی میں   وہ کسی ندیدے کی طرح   ان پیروں کو گھور گھور کر دیکھنے لگا۔  اس  کی آواز  نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا ، تو نظروں کے سامنے ایک نوجوان لڑکی   کو کسی کو چنگ سینٹر  تک چھوڑنے کی بات کر تے ہوئے   پایا۔ مکمل حجاب میں  اس کی  آنکھیں بھی بہ مشکل نظر آ رہی تھیں۔ اس کی نظروں نے  یقنا  ً اس لڑکی کو کچھ تو  ایسا   اشارہ دیا  ہو گا کہ اب کی بار اس کا لہجہ    بہت کرخت  تھا۔      وہ اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہوا۔    لڑکی کے رکشے میں سوار ہوتے ہی وہ   تیزی سے رکشہ اس مطلوبہ کوچنگ  سینڑ کی  جانب دوڑانے لگا۔

اپنی منزل پر پہنچ کر  وہ رکشے سے اتری ، تو   اپنا کرایہ لیتے ہوئے وہ  ایک بار پھرمسلسل اس کے پیروں کو  گھورتا رہا، شاید وہ لڑکی پھر   سے ان نظروں کو بھانپ گئی تھی، تبھی تو  وہ تقریباً دوڑتی ہوئی کوچنگ سینڑ کے اندر چلی گئی۔ اس سے یہ کیا سر زد  ہو رہا تھا، ایک ہی دن میں   دوسری بار کسی نے اسے یہ احساس دلایا تھا کہ اس کی نظروں میں شفافیت نہیں بلکہ وہ شاید ہراسا ں کر دینے والی نظریں تھیں۔ لیکن خود صرف اسے ہی معلوم تھا کہ وہ ایسا لڑکا تو بالکل بھی نہیں تھا، یہ سب اس سے بے اختیار ہو رہا تھا۔   اس کو ایک عجیب احساس نے گھیرلیا کہ شاید  وہ  پیر زمین پر رکھنے کے لیے بنے ہی نہ ہوں۔    ایک دل پھینک عاشق کی طرح   وہ بھی شاید اپنا دل  اس لڑکی کے قدموں میں رکھ چکا تھا۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ  اس کے قدموں تلے مخملی قالینیں بچھاتا  ، تاکہ کوئی دھول  اس کی نازکی پر  اثر انداز نہ  ہو۔

رکشہ  پارک کر کے اس کا  واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے وہی انتظار کرنے کا فیصلہ کیا، اس امید پر کہ وہ  لڑکی  واپس بھی تو جائے گی، ہر چند اس دوران چند ایک گراہگ نے سو اری مانگی مگر اس نے اس معذرت کے ساتھ انکار کر دیا کہ وہ کسی  کا انتظار کر رہا ہے۔  شاید اسے یوں انتظار کرتے ہوئے  گھنٹہ دو گھنٹہ گزر گیا ہو گا، لیکن اسے وقت کا احساس ہی کب تھا۔  وہ تو  ان خوبصورت پیروں کی ایک اور جھلک دیکھنے کے لیے پوری شام وہیں  پر کھڑا رہ سکتا تھا۔    وہ مسلسل اسی کوچنگ سینڑ کے دروازے کی جانب  دیکھ رہا تھا۔ اب وہاں پارکنگ میں  خالی رکشوں کی تعداد  بھی بڑھ   گئی تھیں۔ ایک انجانے خوف اور جلن کے احساس نے اسے گھیر لیا،    اسے یہ سوچ کر کہ  وہ لڑکی اس کے رکشے میں جانے کے بجائے کسی اور رکشے میں چلی جائے گی، بہت برا لگ رہا تھا ۔            اس خوف سے وہ  کوچنگ سینٹر کے دورازے  کے عین سامنے   ٹکٹکی باندھے   انتظار  کرنے لگا۔     جیسے ہی اس کی نظر سامنے سے آتی اس لڑکی پر پڑی، وہ  چوکنا ہو کر  اس کے اٹھتے قدم گننے لگا۔ لڑکی کے گیٹ پر پہنچنے کی دیر تھی کہ وہ   بجلی کے شعلے کی طرح اس کے  سامنے  آن کھڑا ہوا، ’’ آپ نے واپس جانا ہو تو رکشہ  حاضر ہے۔’’ اس اچانک   اور غیر متوقع  استفسار سے  وہ   بری  طرح چونکی، لیکن  حواس بحال ہوتے ہی وہ  بلا  چوں و چرا کے   رکشے کی سمت بڑھنے لگی۔  وہ آگے  نکلی تو لڑکا     کچھ فاصلے پر  کھڑے رکشے تک  اس کے اٹھتے ہر قدم پر اس کے خوبصورت  پیروں  کی دل ہی دل میں مداح سرائی کرتے اور     گھورتی نظروں کے  ساتھ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ پر اب کی بار اسے گھورتے ہوئے  لڑکی نے نہیں دیکھا۔

اندھیرا  ہونے میں ابھی کافی وقت باقی تھا، اور عمو ماً  وہ رات   کافی دیر تک دن بھر  کی دیہاڑی لگا کر گھر واپس چلا جاتا۔  لیکن آج اس کے اندر بالکل  وہی خوشی تھی جیسے اس دن کی کمائی پوری ہو گئی  ہو۔   گھر آ کر بھی اس کا ذہن بار بار اسی منظر   کو   دہراتا  اور اسے الجھاتا رہا  اور دل بھی     عجیب  بے چینی  اور خوشی  کے  احساس سے سرشار  تھا۔

اگلے دن معمول کے مطابق وہ  صبح سویرے رکشہ لے کر اڈے پر پہنچا ۔  روز کے شیڈول کے حساب سے وہ   دوپہر تک  دیہاڑی لگا کر  گھنٹہ بھر آرام کرنے کے لیے  گھر چلا جاتا، اور  آرام کے بعد رات گئے تک  رکشہ چلاتا۔ لیکن  آج  اس کا  گھر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔   اسی  خوف نے پھر اس  کے دل میں    جگہ کر دیا کہ اگر  وہ لڑکی آج   وہاں جلدی آ گئی تو   وہ آج  اس کے دیدار سے محروم  رہ جائے گا۔  رش کے سبب   وہاں کوئی  بھی دوسرا خالی  رکشہ  نہیں تھا ، لیکن  وہ  پھر بھی ہر سواری اسی لڑکی کے انتظار میں ٹالتا رہا، کہ کہیں خالی رکشہ نا پا کر اسے انتظار نا کرنا پڑے۔   لیکن اس کے خدشات کے برعکس  وہ  لڑکی آج بھی شام کے اسی وقت عین اس کے رکشے کے سامنے کھڑی تھی۔  لڑکی کے دیدار نے  اس کے اندر  خوشی کا وہ احساس جگایا تھا کہ وہ  رکشہ دوڑانے کے بجائے اڑا نے کے موڈ میں تھا۔ واپسی پر بھی کل کی طرح اس لڑکی کا انتظار کرتا رہا۔ اس کے اگلے دن، اور اس کے اگلے دن  اور  پک اینڈ ڈراپ کا سلسلہ   دنوں کو طے کرتا اب مہینوں   کی مدت  پوری کر رہا تھا۔   لیکن  مجال کہ دونوں کے درمیان علیک سلیک سے  بڑھ کر کوئی بھی  بات  ہوئی ہو۔   دونوں کے درمیان خاموشی کی یہ  قدر  ہی فی الحال ایک مشترکہ قدر تھی  ۔

 کبھی کبھی وہ نہا دھو کر  اور بن سنور کر آئینے کے سامنے کھڑا ہو جاتا، تو  اپنے عکس کو دیکھ کر  دل ہی دل میں خوش ہو جاتا۔  وہ ہر لحاظ سے   کسی  بھی لڑکی کے معیار پر پورا اتر سکتا تھا۔ وہ انتہائی وجیہہ ، پر اعتماد اور  پر کشش شخصیت کا مالک جوان تھا۔    وہ ایک انتہائی مضبوط اور باکردار لڑکا تھا۔ شخصیت میں سنجیدگی    نے اسے مزید نکھار بخشا تھا۔ دو سال پہلے  وہ اپنی گریجویشن پوری کر  چکا تھا اور اس  سے پہلے کہ  اپنے ہی شعبے میں کوئی نوکری ڈھونڈ پاتا ، مالی  حالات  نے اسے رکشہ ڈرائیور  بنا دیا تھا۔  لیکن شکل سے وہ ابھی بھی  کسی بھی پڑھے لکھے  آفیسر سے کم نہیں تھا۔

اس دن بھی وہ شام کو   باقاعدگی سے اس کا انتظار کر رہا تھا، لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد  وہ نہیں آئی۔ اسے بہت مایوسی ہوئی۔ گھڑی پر وقت دیکھ کر اس نے یہی اندازہ لگا لیا کہ شاید وہ آج نہیں آئے گی۔ گھنٹہ بھر بے چینی میں گزار کر اس نے کوچنگ سینڑ کی جانب رکشہ دوڑایا، اس امید پر  کہ شاید وہ کوچنگ سینڑ کے باہر ہی مل جائے۔ لیکن وہاں پر بھی اسے مایوسی ہی ملی۔ وہ دن   تو جیسے تیسے کر کے  گزر  گیا لیکن  تقریباً  مسلسل ایک ہفتے تک اسے اسی مایوسی کا سامنا  کرنا پڑا۔  ۔   اس پورے  عرصے میں اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اس لڑکی کا گھر  کہاں ہو گا، اگر وہ یہ کر لیتا تو  آج اس کی تلاش میں یوں خوار نہ ہوتا۔ دن میں کہیں بار وہ اسی مقصد سے رکشہ   مختلف گلیوں میں گھماتا کہ شاید وہ   کہیں  دکھ جائے لیکن سب بے سود ۔ اس  کے دل میں روز امید کی ایک نئی کرن جاگتی اور  روز ہی وہ کرن ڈوب جاتی۔  یہ  نا امیدی اب  اسے  اداسی کے گہری کھائیوں میں دھکیل رہا تھا ۔

آج اس کے دل  کے موسم کے ساتھ ساتھ باہر کا موسم بھی بہت اداس ہو رہا تھا۔ آسمان نے کالے بادلوں کی چادر اوڑھ  رکھی تھیں، اور شدید بارش ہونے کی نوید بھی دے رہی تھی۔  کسی پر امید جگنو کی مانند شمع کی تلاش میں وہ دیوانہ وار  گھنٹوں تک  کسی بھی  متوقع راستے پر رکشہ  دوڑاتا  رہا، اور تب تک دوڑاتا رہا جب تک رات کی کالی چادر نہ پھیل گئی۔   آسمان پھٹ کر برسنے لگی  اور  ٹھنڈ بھی  بڑھنے لگی ۔  بارش سے بچنے کے لئے لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے لگے تو گلیاں بھی  سنسان ہونے لگیں۔ رات کافی ہو چکی تھی اور   اس نے بھی گھر  لوٹنے کا سوچا لیکن ارادہ ترک کردیا  اور  جانے کیوں رکشہ گھر کی طرف لینے کے بجائے اس نے  قریب ہی ایک شادی  ہال  کا رخ کیا  ، جہاں کسی شادی کی تقریب چل رہی تھی۔ پارکنگ میں گاڑیاں تو کافی تھیں لیکن  اسے اپنے رکشے کے علاوہ وہاں کوئی دوسرا رکشہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ وہیں رکشہ پارک کر کے کسی متوقع  گراہگ کا انتظار کرنے لگا۔   طوفانی بارش نے  رکشے کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی اس کے کپڑے شرابور کر دیئے تھے۔ لیکن ان سب سے بے نیاز اس کے من کا موسم باہر کے موسم سے مکمل ہم آہنگ تھا۔    اس زورآور اور قابض محبت نے اس  کے سارے ساز اور تانوں کو   اپنے تابع کر لیا تھا  تبھی تو  بے انتہا اداسی سے وہ دل ہی دل میں بے  اختیار   رونے لگا۔

ابھی اسے انتظار کرتے کچھ ہی منٹ گزرے ہو نگے کہ شادی ہال سے کچھ عورتیں باہر نکلیں۔  موسلادھار بارش سے بچنے کے لئے وہ تیز قدموں سے  اس کے رکشے کی سمت بڑھنے لگیں۔   رکشے کی جانب تیز تیز قدم اٹھاتے اور   موسلا دھار بارش میں بھی وہ  ان پیروں کو پہچاننے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اسی  لڑکی کے پیر تھے، اور رکشے میں سوار ہوتے ہوئے اس نے  نا صرف اس کے پیر دیکھے بلکہ اس کا چہرہ بھی دیکھ لیا۔ اس نے خلاف معمول  اپنا چہرا  نقاب میں نہیں ڈھانپا تھا۔   اس کا چہرہ بالکل واضح اور صاف دکھائی دے رہا تھا۔  خوبصورت پیروں والی وہ لڑکی بہت ہی پیاری اور  من موہنی صورت  والی بھی تھی۔  اس کی نظریں اس حسین چہرے پر  ایک بار  پھر ٹک گئی    ، جس نے ایک لمحے کے لیے اسے پھر سے یہی سوچنے پر مجبور کر دیا  کہ آخر یہ خوبصورتی کیا بلا تھی؟           کیا ایک حسین  چہرے والے نے آج ایک بار پھر معمولی چہرے والے کے حق پر ڈاکہ ڈالا تھا، کیونکہ اپنی نزد یکی  یاد اشتوں میں اسے یہ کہیں   یاد نہیں تھا کہ کھبی بھی اس کی نظر یں کسی معمولی  چہرے پر  ایسے ٹکی ہوں، جیسے اس پر ٹکی تھیں۔ اس  سنجیدہ، مضبوط اور مستحکم کردار والے شخص کے دل پر   بھی محبت اپنا شب خون مار چکی تھی، اور وہ بھی تب جب وہ خود اس کے وار سے بالکل غافل تھا۔  حالانکہ محبت کے معاملے میں  اس کی ترجیحات میں کسی کی ظاہری شکل و صورت     بس ایک اضافی  حیثیت  ہی رکھتی تھی، وہ  تو ہمیشہ سے ایک اچھی سیرت کا دلدادہ تھا ۔   لیکن پھر بھی کسی بھی  عام شخص کی طرح  اس کا دل بھی  ایک روشن اور اجلی شبیہ  پر ہی آکر رک چکا تھا ۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے کئی مرتبہ   اپنے  جذبات کو زبان دینی چاہی لیکن  ٹھیک اسی لمحے میں اسے  دنیا میں بولی جانے والی  تمام زبانوں اور ان کے تمام لغات کے محدود ہونے کا احساس گھیر لیتا۔ اسے اپنے دل میں چھپے احساس کو الفاظ کا  جامہ پہنانے کا ہنر شاید آتا ہی نہیں تھا۔ اپنے آپ میں وہ جتنا سیکیور  تھا، اپنے جذبے کی نا قدری کا  بھی اتنا ہی خدشہ  تھا۔ اگر اس  مہ جبین کی لئے اس کی محبت یکطرفہ ہوئی تو وہ     اس کے لیے کسی طوفان سے کم نہیں ہو گا۔  محبت کے سمندر میں   اپنے دل کی کشتی   وہ بے اختیار اتار چکا تھا۔ اور    اس کے دل کی کشتی  اس پری وش   کےا یک  ہاں پر اگر سمندر پار کر سکتی تھی، تو اس کے انکار پر  آج نہیں تو کل اسے  ایک بھیانک طوفان  کا  سامنا کرنا  ہی تھا، پھر  چاہے وہ اپنی کشتی کے بادبان اونچے رکھتا یا اپنی پتوار تیز چلاتا۔

 وہ تعداد میں تین عورتیں  تھیں ، ان میں سے  بزرگ خاتون غالباً ان کی ما ں، دوسری جو   زیورات میں لدھی پندھی شاید اس کی بھابھی اور تیسری وہی  لڑکی تھی ۔ اس نے دانستہ بیک مرر میں  ایک گھورتی ہوئی نگاہ ڈالی  اور تب تک گھورتا رہا جب تک اس   نے لڑکی کو اپنی موجودگی کا احساس نہ دلایا۔   لڑکی  کسمسا کر اپنے چہرے کو  چادر  سے چھپانے کی  کوشش کرنے لگی۔  لڑکی کی اس حرکت پر وہ  ایکدم شرمندہ ہو گیا اور پتہ پوچھ کر رکشہ اس سمت  دوڑانے لگا۔  وہ اب مختصر وقفوں سے  بیک مرر میں  نگاہ ڈالتا رہا۔ لڑکی اپنی بھابھی سے  باتیں کرنے میں مصروف تھی اور وہ   بے اختیار ان کی باتیں سننے لگا۔ وہ  دونوں شادی میں آنے والے لوگوں، دلہا دلہن اور  انتظامات کے بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔  بزرگ خاتون نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا،’’ عارف کی ماں ملی تھی آج شادی پر، وہ  پھر سے   اصرار کر رہی تھی تمہارے رشتے کے لئے۔ میں تو شرمندہ سی ہو جاتی ہوں  بار بار مہلت مانگ کر۔ تم  مان کیوں نہیں جاتی عارف کی لئے، اتنا اچھا تو ہے۔’’

’’خدا کے لیے امی، پھر سے نا شروع ہو جائے گا ۔  آپ حیلے بہانے چھوڑ کر میری طرف سے صاف انکار کیوں نہیں کرتیں۔ میں بارہا  کہہ چکی ہوں کہ میں عارف  کے لیے کھبی ہاں نہیں کرونگی۔’’

’’کیوں نہیں کرنی ہاں  اس کے لیے ، اتنا اچھا تو ہے۔  پڑھا لکھا ہے، شریف اور سیدھا سادہ بھی،  خود کا گھر بھی  ہے ان کا۔ ’’ خاتون بولی۔

’’تو؟ خالی گھر سے کیا ہو گا؟   اور پڑھ لکھ کر اس نے کون سا تیر مار لیا ہے۔ ایک ڈھنگ کی نوکری تک تو ہے نہیں  اس کے پاس۔ ’’

’’کیا ہوا جو ابھی تک نوکری نہیں اس کے پاس۔ اس کے پاس خود کا اپنا وین ہے ،جس سے اچھی خاصی کمائی ہوتی ہے ، اس کی امی بتا رہی تھی۔ کیوں بھول جاتی ہو پگلی ، وہ پسند کرتا ہے تمہیں۔ بہت خوش رکھے گا تمہیں ۔ خوش  ہو جاؤ اسی بات پر۔ مرد  اپنی من پسند عورت کے لئے  کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ تم بہت خوش رہو گی اس کے ساتھ گارنٹی لے لو مجھ سے۔ ’’

’’مر کر میں اس  کے رشتے کے لیے ہاں نہیں کرونگی۔  خواب  میں بھی نہیں ملے گی اس  وین والے عارف کو اس کی من پسند عورت۔ کل کلاں کو کسی گھٹیا سے، دو ٹکے کے رکشہ والے کا رشتہ آئے گا، اور مجھ سے  محبت کا دعوی کرے گا، تو کیا میں اس کے لئے بھی مان جاؤں۔ حد کرتی ہیں آپ بھی امی۔’’  وہ بیک مرر میں نگاہیں جمائیں یوں اترا    اترا کر بول رہی تھی  گویا اس کی طرف سے ایک اعلانیہ انکار ہو۔

’’ گٹھیا سے دو ٹکے کا رکشہ ڈرائیور’’ یہ الفاظ کسی بم کی طرح اس پر گرے۔  ایکسلیریٹر کے بجائے اس کے پاؤں بریک پر پڑے اور ایک جھٹکے سے رکشہ رکا۔ خون اس  کے رگوں میں انگارہ بن کر دوڑنے لگا۔  غصے اور  نفرت میں سلگتے ہوئے اس نے تینوں خواتین کو رکشے سے اتر جانے کا حکم دیا۔ وہ تینوں حیرانی میں رکشے سے اتریں۔ اتنی طوفانی بارش اور اندھیری رات میں انہیں یوں بیچ  راستے رکشے سے اتارتے ہوئے کوئی ملال نہیں تھا۔  اس نے جان بوجھ کر رکشہ اس تیزی سے موڑا کہ بارش سے بننے والے  کیچڑ کو اپنے رکشے کے ٹائروں سے اس لڑکی کے پیروں پر اچھالا۔ ایک انجان خوشی نے اس کے اندر سرایت کی اور اسے  یوں لگا کہ دو ٹکے کے گھٹیا رکشہ ڈرائیور نے اپنی ہتک اور بے عزتی کا جم کر بدلہ لیا ہو۔ اس کی نظر اس لڑکی کے پیروں پر پڑی،  کیچڑ میں لت پت   وہ  نہایت عیب دار اور بد صورت  ہو چکے تھے ، اتنے  بد صورت کہ خود اس کے عاشق کو ان سے کراہت ہونے لگی۔

   لیکن اسکی خوبصورتی کو  پامال کرکے اسے انتہائی دکھ ہو رہا تھا۔ تھوک کر چاٹنا برا نا ہوتا تو وہ  خود اپنے ہاتھوں سے اس کے پیروں پر لگے داغ کو صاف کرتا۔ وہ تو خود کو اس کی محبت کا دعویدار کہتا تھا۔ گو یہ یکطرفہ محبت تھی، لیکن محبت کیسی بھی ہو، دوسرے کے پلٹ جانے پر  وہ اپنی وقار کھو دے، اپنی حرمت کھو دے، تو یہ تو  محبت کی تحقیر ہوئی۔ کیا اس کی محبت اتنی حقیر تھی۔  ا حساس ندامت سے وہ  پھوٹ پھوٹ کر رونے  لگا ہی تھا کہ کاندھے پر ہاتھ سے اسے جھٹکا لگا۔ بزرگ خاتون اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اس کے حواس بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی،’’ کیا ہوا بیٹا، کیوں رک گئے، خدانخواستہ   تمہاری طبیعت تو خراب نہیں ہوئی؟’’

 حواس بحال ہوئے تو دیکھا سب کچھ وہی رکا ہوا ہے۔ بارش بھی جاری تھی اور تینوں خواتین بھی رکشے کے اندر موجود تھیں۔ اس نے ایک نظر بیک مرر میں ڈالی تو خوشی  کے احساس نے اس  شکر ادا کرنے پر مجبور  کر دیا۔ ایک لمبی سانس لیتے ہوئے وہ اتنا ہی بول پایا، ’’ کچھ نہیں خالہ جان’’، اور رکشہ   ان کی منزل کی سمت دوڈانے لگا۔

اگلے  دن شام  کے اسی وقت وہ    اسی مصروف  رکشہ اسٹینڈ پر     آتے جاتے ہر گراہگ  کو  ٹالتا رہا۔ اسے  اب بھی  یہ گوارا نہیں تھا کہ روز اپنے انتظار میں کھڑی  اس کے خالی رکشہ کو نا پا کر اس  لڑکی کا بھرم ٹوٹے۔ جس طوفان کا اسے ڈر تھا وہ آچکا تھا  اور   اسکے دل کی کشتی  بھی ڈوب چکی تھی ۔لیکن   ڈوبتے ہوئے نہ ہی  وہ شور کر رہا تھا اور نہ ہی واویلا مچا کر محبت کےاس  سمندر کا تقدس پامال کر رہا تھا۔

زہرا علی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *