شادروان عالم مصباح کے فلاسفی ڈیپارٹمینٹ میں استاد کے طور پر تعیناتی کے بعد وہ خواہ ہزارہ ٹاؤن میں مقیم تھے یا پھر یونیورسیٹی ہاسٹل میں، انکی شامیں علمدار روڑ میں ہم دوستوں کے ساتھ ہی گذرتی تھیں۔ زیادہ بیٹھکیں مرحوم استا جمعہ کی دکان میں لگتی تھیں، جہاں استا جمعہ، عالم مصباح، میں، زمان دہقانزادہ، زمان ٹھیکیدار تقریباً روز اکھٹے ہوتے جبکہ حاجی ابراہیم (چیف انجنئیر گیس کمپنی)، مرحوم حسین بخش حسینو وغیرہ کبھی کبھار آتے تھے۔ ویسے تو مصباح پوشاک اور حلیہ کے حوالے سے کافی لاپروا تھا لیکن ایک شام جب وہ آیا تو اس کی حالت کافی خراب تھی۔ پوچھنے پر اس نے جو واقعہ سنایا وہ پاکستانی سماج اور اداروں میں رائج بے اصولی کا عکاس ہے جو بدقسمتی سے آج تک نہ صرف قایم ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ عالم مصباح نے جو تفصیل بتائی وہ اسی کی زبانی سنیے:
“میں پچھلے شام حسب معمول علمدار روڑ سے براستہ سرکی روڑ یونیورسٹی ہاسٹل جارہا تھا کہ گوالمنڈی چوک پر پولیس والوں نے مجھے روکا اور مجھ سے موٹر سائیکل کے کاغذات اور لائسنس مانگے جو اس وقت میرے پاس نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے وہ مجھے اپنے ایک اے ایس آئی انچارج کے پاس لیکر گئے۔ میں نے اسے اپنا یونیورسٹی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ جناب میں ایک استاد ہوں اس وقت میرے پاس کاغذات اور لائسنس نہیں، آئیندہ رکھا کرونگا، لیکن موصوف نے میری بات ان سنی کرکے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کی موٹر سائیکل تھانہ لیجاکر بند کردو اور مجھ سے کہا کہ کل مطلوبہ دستاویزات لے کر آجانا اور اپنی بائیک لے جانا، مزید بات کرنے کی کوشش کی تو انچارج صاب نے جھڑک دیا، مجبوراً مجھے رکشہ لے کر ہاسٹل جانا پڑا۔ فلاسفی ڈیپارٹمینٹ میں میرے ایک کولیگ حامد صاحب کبھی کبھار اپنے ایک دوست ریاض احمد کا ذکر کرتے تھے جو بلوچستان پولیس میں ایک بڑے عہدہ پر تعینات تھے۔ اگلے دن، صبح ڈیمارٹمینٹ پہنچتے ہی میں نے سب سے پہلے حامد صاحب کو ڈھونڈ نکالا اور تمام واقعہ بیان کرکے اپنی بائیک چھڑانے کی بات کی۔ انہوں نے اسی وقت اپنے پولیس دوست سے بات کی جو اتفاق سے اس وقت ایس ایس پی کوئٹہ کی طاقتور پوسٹ پر تعینات تھے۔ بات ختم کرنے کے بعد حامد صاحب نے مجھے کہا کہ اسی وقت تھانہ جاکر اپنی بائیک لے لو۔ میں نے انکا شکریہ ادا کیا، رکشہ لیا اور سیدھا گوالمنڈی تھانہ کے ایس ایچ او کے دفتر پہنچ گیا۔ سلام دعا کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا اور آنے کا مدعا بیان کیا۔ ایس ایچ او سرکار نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو کاغذات وغیرہ نہیں رکھتے اوپر سے بڑے افسران سے سفارشیں بھی کرواتے ہو، ساتھ ہی ایک سپاہی کو بلا لیا اور مجھے اس کے ساتھ چل کر اپنی بائیک لینے کو کہا۔ تھانہ کے صحن میں درجنوں موٹر سائیکلیں، رکشے اور گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر میں نے اپنی بائیک نکال تو لی لیکن اس کا میٹر غائب تھا یعنی کسی پولیس والے نے راتوں رات اس پر اپنا ہاتھ صاف کیا تھا۔ میں دوبارہ صاب کے پاس گیا اور میٹر غایب ہونے کی بات کی تو اس نے ناراض ہوتے ہوئے کہا شکر کرکے اپنی بائیک لے کر جاو، اگر کیس بنا دیا تو ہفتوں کچہری میں خوار ہونا پڑے گا۔ چونکہ حامد صاحب کے توسط مجھے اپنی طاقت کا اندازہ تھا، لہذا پاؤں پٹختے یہ کہ کر میں اس کے دفتر سے نکل گیا کہ “مجھے پھر صاحب سے بات کرنی پڑے گی”۔ تھانے کے باہر سے ایک بار پھر رکشہ لیکر یونیورسٹی اپنے کمرے پہنچا تو وہاں ایک چھوٹے قد کا ہٹا کٹا ہزارہ پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا تعارف ایس آئی علی مدد کے نام سے کیا اور کہا کے آپ کے نکلنے کے فوراً بعد صاحب (ایس ایچ او) نے مجھے بلالیا اور آپ کی طرف آنے کا حکم دیا۔ آپ برائے مہربانی ایس ایس پی صاحب سے مزید شکایت نہ کریں، ہم سب کی بے عزتی ہوگی، آپ کا مسلہ میں خود حل کرلوں گا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی بائیک صحیح حالت میں چاہیے اور بس۔ علی مدد صاب کافی خوش ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور اسی وقت اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ تھانہ پہنچ کر اس نے کسی کو بلا کر حکم دیا کہ رات ڈیوٹی دینے والے تمام عملے سے فوری رابطہ کرو اوران کو موٹر سائیکل کا میٹر واپس کرنے کا کہو ورنہ کسی کی خیر نہیں۔ اس کے بعد موصوف نے چائے منگوائی اور بات چیت میں لگ گئے۔ کافی انتظار کے بعد کسی سپاہی نے آکر خوشخبری سنائی کہ میٹر برامد ہوگیا ہے اور اب اسے لگانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ کچھ دیر کے بعد میری موٹربائیک اصل حالت میں مجھے مل گئی اور میں نے مدد صاب کا شکریہ ادا کیا اور بائیک لے کر یونیورسٹی کی راہ لی، البتہ پورا راستہ ایس ایچ او سرکار کے یہ الفاظ میرے دماغ میں گونجتے رہے کہ اگر کیس بنا دیا تو ہفتوں کچہری میں خوار ہونا پڑے گا”۔
قارئین کرام!
یہ پچھلی صدی میں نویں کی دہائی یعنی تیس سال پہلے کی بات ہے، خیر سے اب پاکستانی ادارے مزید انحطاط اور زوال کے شکار ہوئے ہیں۔ شاید اب تگڑی سفارش کے ساتھ تگڑی رشوت اور نذرانے کی بھی ضرورت ہوتی ہوگی، بیچارے عوام جائیں تو جائیں کہاں؟؟؟
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 08/11/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024
غریب تباہ دی