رسّی کی گانٹھ ۔۔۔ زہرا علی

رسّی کی گانٹھ

زہرا علی

قسط اول

مولوی غلام حسین کے ہاں شادی کے دوسرے برس ہی اللہ کے  فضل سے رحمت پیدا ہوئی تو دادی ماں نے کنیز فاطمہ نام رکھا۔ چھوٹا سا خاندان خود مولوی صاحب کے علاوہ ان کی زوجہ اور ماں پر مشتمل تھا۔ پورا خاندان سخت دین دار تھا اور دنیا اور دنیاوی تعلیم سے خائف بھی۔ یہی وجہ ہے کہ دادی نے اپنے  اکلوتے بیٹے کو بھی دینی تعلیم ہی دلوائی۔ پوتی کی پیدائش پر ڈاکٹرنی کے بجائے گھر پر ہی دیسی ٹوٹکوں اور دائی کی خدمات پر بچہ جننے کا حکم ملا،جس کا قلق اسے زندگی بھر رہا۔  بہت ساری پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی بے حد خواہش کے باوجود بیٹے کے ہاں اولاد نرینہ تو کیا ہونا تھا، بہو بیچاری آئندہ  بچہ جننے کے لائق ہی نہ رہی۔ اس کے باوجود کبھی ڈاکٹر سے علاج نہ کروایا۔   چھ سال کی عمر میں فاطمہ کے سر سے ماں کا سایہ  اٹھا تو وہ دادی کے زیر دست آگئی۔  اب وہی اس کی ماں تھی اور  وہی اس کی دادی۔ دادی ماں نے فاطمہ کو بھی بیٹے کی طرح  کبھی سکول نہیں بھیجا اور گھر پر ہی بنیادی دینی تعلیم دی۔فاطمہ ا ٓٹھ سال کی عمر میں ہی سخت پردے میں بٹھا دی گئی۔ اسے چونکہ کہیں آنے جانے کی اجازت نہ تھی اس لئے  کھیلنے کے لئےگھر کے صحن کے پچھواڑے میں لگے شہتوت کے گھنے درخت پر جھولا جھولنے کی ہی  اجازت ملی  مگر وہ بھی تب جب مولوی ابا گھر پر نہ ہوتے۔ فاطمہ کے لئےگھر کا وہی حصہ سب سے پسندیدہ ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جھولا جھولتے ہوئے رسی کی گانٹھ ڈھیلی ہو کر کھل گئی  تو فاطمہ کو بہت چوٹیں آئیں ۔زخم بھرگئے تو دادی ماں کے کہنے پر مولوی ابا نے رسی کی مضبوط گانٹھ باندھ کر نہ صرف نیا جھولا بنایا بلکہ فاطمہ کو بھی مضبوط گانٹھ باندھنا سکھا دیا۔ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھا چھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہےلہٰذا جھولے سے گر نے کے بعد کنیز فاطمہ ہر بار جھولا جھولنے سے پہلے پرانی گانٹھ کھول کر نئےسرے سے مضبوط گانٹھ باندھ دیتی، یہ مشق کرتےوقت فاطمہ دادی سے کہا کرتی کہ “رسی کی مضبوط گانٹھ باندھنا صرف اسے ہی آتا ہے، کوئی اور ایسا نہیں کر پائے  گا”۔

دادای ماں کی صحبت میں فاطمہ نے اپنا  سارا بچپن اور لڑکپن گھر میں ہی گزارا۔ مانو گھر کی چاردیواری میں قید فاطمہ باہر کی دنیا سےبالکل ہی نا آشنا تھی۔   مولوی ابا کے علاوہ اس نے شاید ہی کبھی کسی اور مرد کا چہرہ دیکھا ہو۔ اپنی عمر کی باقی لڑکیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی چھوٹے قد کی، موٹی اور وزنی لڑکی، اور معمولی سی شکل و صورت والی  فاطمہ وقت کے ساتھ ساتھ  اپنا بچپن اور لڑکپن پیچھے چھوڑکرجوانی کی حدود میں داخل ہوئی تو دادی ماں اورمولوی ابا کی پابندیاں بھی کچھ درجےزیادہ سخت ہوگئیں۔ 

ایک دن مولوی ابا کی طبیعت بہت خراب ہوئی، دادی ماں کے گھریلو ٹوٹکے کام نہ آئے تو مجبوراً انہیں ابا  کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔ اس دن فاطمہ گھر پر اکیلی رہ گئی۔ جاتے وقت سخت تاکید ہوئی کہ ان کی دستک پر ہی دروازہ کھلے گا ورنہ نہیں۔ کچھ دیر کے بعد دروازے پر دستک ہوئی تو فاطمہ نے سوچا کہ دادی ماں اور ابا ہوں گے۔ بڑی سی چادر اوڑھے اور اپنا  آدھاچہرہ ڈھانپ کر وہ دروازہ کھولنے گئی لیکن دروازے پر نہ ابا تھے اور نہ ہی  دادی ماں بلکہ وہاں ایک نوجوان  لڑکا کھڑا تھا جو شاید مولوی ابا کا کوئی شاگرد تھا۔ گورا چٹا، لمبے قد کا نوجوان۔ خوبصورت ترشی ہوئی داڑھی،سفید رنگ کا کرتہ پہنے اور سر پر سفید ٹوپی رکھے ایک نہایت وجیہہ اور خوبصورت نوجوان لڑکا!  فاطمہ کا آدھا چہرہ پردے میں چھپا ہوا تھا لیکن اس کی آنکھوں اور نوجوان لڑکے کے درمیان کوئی پردہ نہیں تھا۔ “مولوی صاحب آئے تو انہیں میرا پیغام دیجئے گا کہ ۔۔۔”  نوجوان نہ جانے کیا کہتا رہا،لیکن فاطمہ اسے سن نہیں رہی تھی صرف دیکھ رہی تھی۔ کوئی اور حس اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ نوجوان کی بات ختم ہوئی تواس نے احتیاطاً پوچھا کہ  کیا فاطمہ اس کا پیغام مولوی تک پہنچا دے گی؟  سنُ ہوئی فاطمہ بس اتنا ہی بول پائی کہ وہ اگلی صبح آکر خود ابا  کو اپنا پیغام دے دیں۔ نوجوان چلا گیا لیکن ساتھ فاطمہ کے دل میں یہ ارمان بھی جگا گیا کہ کاش وہ اسے کبھی دوبارہ بھی دیکھ سکے۔

جوانی کے جوش میں آکر لڑکی کوئی جذباتی اور غلط قدم نہ اٹھائے، یہ سوچ کر دادی نے اس بات کا یہ انتظام کر رکھا تھا کہ نہ تو وہ خود کہیں جاتی نہ ہی  فاطمہ کو کہیں آنے جانے دیتی۔ اور تو اور دادی نے جنت اور جہنم اور حلال و حرام کا ایک ایسا ڈرفاطمہ کے من میں بٹھا دیا تھا کہ  اگر کبھی بھولے سے اس نوجوان لڑکے کا خیال اسکے دل میں آتا بھی تو وہ فورا اپنا سر جھٹک کر توبہ  استغفار  شروع کردیتی۔

“رسی کی مضبوط گانٹھ باندھنا کوئی ہنر نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی انعام۔ یاد یہ رکھنا ہے کہ تیرا ہاتھ اور اللہ کی رسی کی گانٹھ مضبوط ہو، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔ فاطمہ تو لڑکی ذات ہے۔ کچھ بھی غلط سوچنے سے پہلے اپنا نام دوہرانا! ‘کنیز فاطمہ’  اور اس نام کی لاج رکھنا۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ ہم سب مسلمان عورتیں بی بی کی کنیزیں ہیں۔ تو نے خود کو پاک رکھنا ہے، اپنی سوچ کو پاک رکھنا ہے۔ تن کی صفائی مشکل کام ضرور ہے لیکن اگر تو اس میں کامیاب رہی تو اللہ تجھے اس کا بہت بڑا اجر دے گا۔ دیکھ کنیزفاطمہ تیری پرورش اور تربیت میں نے کی ہے، تیری کسی کوتاہی کی سزا اللہ میاں مجھے نہ دے، مر کر اگلے جنم گئی  تو پتا چلا کہ تیری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی اور میں جنت سے محروم رہ گئی۔ دیکھ بٹیا تیری وجہ سےاللہ میاں مجھے دوزخ میں نہ بھیجے”۔ دادی ماں وقتاً فوقتاً فاطمہ کے کانوں میں یہ  باتیں ٹھونستی رہتی۔                                       

دادی ماں جو فاطمہ کے لئے دنیا کی عزیز ترین ہستی تھیں، اس کی وجہ سے جنت سےمحروم ہو!  ایسا وہ کھبی نہیں چاہتی تھی۔ دادی ماں کی نصیحتیں اسے ہمیشہ یاد رہے، اس کے لیےوہ کثرت سے درود شریف اور استغفار  پڑھتی رہتی۔ اگر شیطان کھبی بہکا کر اس نوجوان لڑکے کا خیال اس کے دل و دماغ میں لاتا بھی تو وہ آنکھیں بند کرکے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ کر زور زور سے تب تک  اعوز باللہ من الشیطٰن الرجیمَ کا ورد کرتی  رہتی جب تک اسے یہ یقین نہ ہوجاتا، کہ اسکے دل اور دماغ میں کوئی نہیں۔

عمر کا ستا ئیسواں برس گزر رہا تھا لیکن دادی ماں کی ہر چند کوششوں کے باوجود فاطمہ کے لیے ایک بھی رشتہ نہیں ملا تھا۔ گنے چنے جتنے بھی رشتے دار تھےسبھی سے دادی ماں کی  فا طمہ کے  رشتے کے لیےبات ہوچکی تھی،مگر لگتا تھا کہ فاطمہ کسی کے لیے نہیں بنی تھی۔ دادی ماں کو لاڈلی پوتی کی جوانی ڈھلنے کی ہر وقت فکر رہتی تھی۔ کھبی کھبار تسلی دینے کے لیےوہ فاطمہ سے کہتی  کہ َ”میری لاڈو بیٹی، میری جان،میری فاطمہ ،تو تو اتنی پیاری اور من کی اتنی صاف ہے کہ  تیرے لیےتو اللہ میاں ایک جنتی لڑکا بھیجے گا، اب اسے  ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھوڑا وقت  تو لگے گاناں، بس تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو۔ میں اپنی جنتی فاطمہ کو اسکے جنتی میاں کے ساتھ جنت میں دیکھوں گی تو  سب سےزیادہ خوش ہوں گی”۔

ایک مرتبہ پڑوسن کی لڑکی کی شادی پر انہیں بھی دعوت ملی۔ حسب معمول دادی نے شرکت سے صاف انکار کر دیا کہ شوروغل سے ان کی طبیعت بگڑتی ہے مگر پڑوسن  نے دادی ماں کو یہ کہہ کر راضی کرلیا کہ وہ فاطمہ کو گھر سے باہر نکالے، شادی بیاہ اور دوسری دعوتوں پر لے جائے تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اس گھر میں ایک کنواری لڑکی ہے جو شادی رچانے لائق ہے۔ شاید اسی طرح فاطمہ کے بند نصیب کھل جائے اور اسکے لیے کوئی رشتہ مل جائے۔ یہ بات دادی ماں کے دل کو چھو گئی اور وہ دعوت میں شرکت کے لیے راضی ہو گئی۔

شادی کی دعوت والے دن سیدھی سادی سی فاطمہ جسے ریتوں رواجوں کا خاص پتا نہ تھا نہ ہی یہ سلیقہ کہ وہ دوسروں کی طرح بن سنور کر اوراچھے کپڑے پہن کر دعوت پر جائے۔ چمکیلے اور زرق برق لباس تو اس کے پاس تھے ہی نہیں کیونکہ  وہ  ہمیشہ گہرے اور تاریک  رنگ کے کپڑے پہنا کرتی تھی لہٰذا دادی نے اپنی پرانی پیٹی سے ایک لال رنگ کا جوڑا نکالا جو جانے کب انہوں نے فاطمہ کے لیےسلوایا تھا۔   ساتھ  ہی دادی ماں نے فاطمہ کو اس کی ماں  کی  شادی کا  لال گوٹےوالا  دوپٹہ بھی پہنا دیا۔ لال  رنگ کا جوڑا  فاطمہ پر خوب جچ رہا تھا۔  دادی ماں نے آخری  حربہ آزماتے ہوئے فاطمہ کی آنکھوں میں تھوڑا سا سُرمہ بھی ڈال دیا۔ خود کو آئینے میں  دیکھ کر فاطمہ شرما کر مسکرا دی  تو دادی ماں نے نصیحتوں کی جو بھاری بھرکم گٹھڑی فاطمہ کے سر پر  رکھی اس کا وزن  خود بیچاری فاطمہ کے وزن سے بھی زیادہ تھا۔

زہرا علی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *