ہزارہ برصغیر میں ۔۔۔ اسحاق محمدی

ہزارہ برصغیر میں 

تحقیق و تحریر : اسحاق محمدی

معروف مورخ تیمور خانوف کے مطابق چودہویں صدی کے وسط میں مختلف ترک اور مغل قبائل کے ملاپ سے ایک نئی قوم ہزارہ کی تشکیل ہوئی جو  قبل ازایں اپنی جداگانہ شناخت رکھتے تھے۔  ان میں سے چند قبائل نے برصغیرکے وسیع علاقوں پر طویل حکمرانی بھی کی تھی۔ اس ضمن میں درج ذیل قبائل زیادہ قابل ذکر ہیں۔

الف۔ خلج

 یہ ایک ترک قبیلہ ہے جوبقول جناب اوحدی” چوتھی صدی سے موجودہ افغانستان اور سیستان میں بود وباش رکھتا ہے” (اوحدی-ص 247)۔ جبکہ شادروان اورزگانی اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ “قندہارکے شمال مشرق میں چورہ وکمسون ان (خلج ) کی سرزمین تھی جوپانچ وادیوں دو سودیہات اورقلعہ جات پر مشتمل تھی جن کی آبادی پندرہ ہزار خانوار جبکہ آس پاس کی آبادی کو ملا کر ان کی تعداد ساٹھ ہزار خانوار تک جا پہنچتی تھی۔ مگر اب ان سب پر افغان قابض ہیں” (اورزگانی-ص61)۔ ان خلج ترکوں نے  برصغیر میں بنگال پر1227-1204 اور دہلی پر 1320-1290 کے ادوار میں حکومت کی۔ فی زمانہ یہ قبیلہ دایکنڈی کے قریب اپنے اسی تاریخی نام کی وادی”خلج” میں آباد ہے جبکہ اپنی سرزمین سے بیدخل لوگ ضلع جاغوری اور نہر شاہی بلخ میں  بود و باش رکھتے ہیں (اوحدی-ص245)۔

ب۔ ارغون

   ارغون ایک مغلی لفظ ہے جسکے معنیٰ صاف،پاکیزہ اور مقدس ہیں۔ اس نام کے کئی فوجی سالار ہمیں مغل تاریخ میں ملتے ہیں تاہم مشہور مغل فاتح حکمران امیر ذوالنون ارغون کا تعلق ایلخانی بادشاہ ارغون کی نسل سے تھا جس نے ایران پر تیس سال تک حکمرانی کی تھی۔ اس کا انتقال 1274 ء کو طوس میں ہوا تھا۔  امیر ذوالنون کی فتوحات سے خوش ہوکر ہرات کے تیموری حکمران حسین بایقرا نے 1475ء میں اسے موجودہ افغانستان کی حاکمیت دی تھی۔ امیرارغون نے زمین داور(ہزارہ جات) کو اپنا اصلی دارلحکومت اور قندہارکو سرمائی دارلحکومت بنانے کے بعد تیزی سے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کردیا تھا اور سوائے ہرات تمام موجودہ افغانستان تک اپنی حاکمیت قائم کردی تھی۔ امیر ارغون 1507ء میں مشہور ازبک فاتح شیبانی خان کے ہاتھوں مارا گیا۔

امیر ذوالںون ارغون کے بعد اسکا بیٹا شاہ بیگ ارغون اسکا جانشین بنا، تاہم اس دوران ایک طرف بابربادشاہ نے فرغانہ میں شیبانی خان سے شکست کھانے کے بعدکابل آکرارغونوں سے جنگ کا سلسلہ شروع کردیا تھا جبکہ دوسری طرف شیبانی خان مرکزی ایشیا میں اور صفوی، ایران میں طاقت حاصل کرنے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی میں مصروف تھے۔  ان حالات کو دیکھتے ہوے شاہ بیگ ارغون  نے  قندہار سے ایک بڑی فوج لے کر پہلے شال (موجودہ کوئٹہ)، مستونگ اور سیوی (سبی) کو فتح کر لیا پھر 1520ء میں سندھ کے جام فیروز کو شکست دینے کے بعد پورے سندھ پر قبضہ کرکے ایک نئی بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی جو ہزارہ جات سےسندھ تک  پھیلی ہوئی تھی۔ 1528ء میں ملتان بھی ارغونوں کے قبضے میں آگیا لیکن اس دوران یکے بعد دیگرے ہزارہ جات سمیت کابل،غزنی ، اورقندہار پر بابربادشاہ کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔

 شاہ بیگ کے بعد اسکا بیٹا شاہ حسین حکمران بنا لیکن اس کی بے اولادی کی وجہ سے حکمرانی کا سلسلہ اس کے چچا عیسیٰ خان ترخان کو منتقل ہوا۔ دہلی کے مغل حکمران اکبر بادشاہ نے 1573ء کو بالائی سندھ اور1591ء کو زیریں سندھ پر قبضہ کرکے ہزارہ ارغون کی حاکمیت ختم کردی جس کی یادگار اب صرف دیدہ زیب فن تعمیر کے شاہکار مکلی قبرستان کی شکل میں باقی ہے جسے یونیسکونے عالمی ورثہ کا درجہ دے رکھا ہے۔ یہاں یہ بتانا شاید بیجا نہ ہوگا کہ شیرشاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں بادشاہ مدد کیلیے سندھ کے ارغونوں کے پاس ہی آئے تھے تاہم ہزارہ جات سمیت اپنی سلطنت کے شمالی حصے پرہمایوں بادشاہ کے دادا بابر بادشاہ کے ناجائز قبضے کی وجہ سے انہوں نے مدد سے انکار کردیاتھا جس کا موقع ملتے ہی اکبربادشاہ نے بدلہ چکا دیا۔ یاد رہے کہ اکبربادشاہ کی پیدائش عمرکوٹ سندھ میں اسی جلاوطنی کے دوران ہوئی تھی۔

رہی ارغونوں کی ہزارہ ہونے کی بات تواس کی تائید سبھی ہزارہ شناس مورخین کرتے ہیں۔ اورزگانی کے مطابق ان کا علاقہ قندہار کے شمال مشرق میں”چہار شینیہ” تھا جوخلج سے متصل تھا جو اب افغان قبائل کے قبضے میں ہے (اورزگانی-ص61)۔  کیپٹن میٹلینڈ اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ “ارغونوں کا تعلق انہی لوگوں ہے جنہوں نے جنوب مغربی ہزارہ جات سے سندھ تک پیشقدمی کی اور ٹھٹھہ سندھ میں ایک آزاد سلطنت قائم کی”(میٹلینڈ-ج4ص233)۔ جناب اوحدی رقمطراز ہیں کہ “ارغون قبیلہ علاقہ چہارشینیہ میں امیرعبدالرحمن کے دور تک بودوباش رکھتاتھا لیکن قتل عام کے بعد دیگرہزارہ آبادی کی طرف تتربترہوگیا۔ فیض محمدکاتب کے مطابق امیرحبیب اللہ کے دور میں موجودہ پاکستان سے  افغان مہاجرنمائندے ہزارہ زمین ہتھیانے آئے تھے  جس کے بعد حکومتی حمایت اوردباوکے نتیجے میں آخرکار باقیماندہ سات سو ارغون ہزارہ خانوار بھی اپنی زمینیں ترک کرنے پرمجبور ہوئے” (اوحدی-ص314)۔

پ۔ نیکودر

 نیکودربن موچی یابہ بن چغتائی کو خاقان منگوبن تولی خان نے 1251ء کے قرولتائی کے فیصلوں کے مطابق ہلاکوخان کو ایران فتح کرنے میں مدد فراہم کرنے کیلیے بھیجا تھا لیکن آگے چل کر اس نے ایلخانی ثانی اباقا خان سے بغاوت کرکے ہرات،ہلمند، قندہار تا خاران اپنی ایک علیحدہ حکومت قائم کردی مگر چونکہ انہوں نے لوٹ مار کو اپنا پیشہ بنایا تھا اس لیے امیرتیمورنے ایک طویل جنگ کے بعد ان کو  شکست دیدی اور یہ لوگ ہزارہ جات بھاگ گئے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ہزارہ قبایل میں گھل مل گئے۔ خاران میں ان کے کئی منزلہ مقبرے اب تک موجود ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے قومی ورثہ قراردے رکھا ہے۔ ان کے ہزارہ ہونے کے بارے میں تیمور خانوف لکھتے ہیں “پندرہویں صدی کے اواخرسے سترہویں صدی کے اوائل تک تاریخ میں جہاں کہیں نیکودری قبائل کا ذکر ہوا ہےوہاں  ہزارہ قوم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہےاور ان کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ وہ وہاں کے مستقل اور خودمختارلوگ تھے۔  لیکن سترہویں صدی کے اواخر کے بعد کی تاریخ میں نیکودریوں کا ایک علیحدہ اور جداگانہ قوم کی حیثیت سے کہیں بھی تذکرہ نہیں ملتا اگر انکا کہیں ذکر ہوا ہے تو کسی ہزارہ قبیلے کی حیثیت سے ہوا ہے”(تیمور خانوف-ص25)۔

ت۔ قارلوق (قرلُق) (چچ ہزارہ)

یہ ترک ہزارہ قبیلہ تھا جو امیرتیمورکے وقت سے موجودہ ضلع ہزارہ میں مقیم تھا ۔ اندریں بابت جناب راجہ استاد خان لکھتے ہیں کہ “وجہ تسمیہ اس میدان کی بہ روایت مرجع ومعتبریہ ہے کہ امیر تیمورکی آمد تک جو آخر 1398ء میں ہوئی، قوم ترک، معروف ہزارہ قارلوق ہری پور اور اس کے گرد و نواح کے میدان پر قابض ہوئی تھی۔ان کے نام سے یہ میدان بنام ہزارہ قارلغ (قرلق) مشہور ہوا”             ( تاریخ ہزارہ-ص21)۔ اب چچ ہزارہ کی زبان ترکی سے ہندکو میں تبدیل ہوچکی ہے۔ حالیہ دور میں مرحوم باباحیدر “تحریک ہزارہ” کے نام سے ایک نئے صوبہ بنانے کی جدوجہد کررہے تھے۔

ان چند مشہور ہزارہ قبائل کے علاوہ جو برصغیر میں حکمران کے طورپر آئے تھے، جدید تاریخ میں ہزارہ اجتماعی مہاجرت دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس وقت کی برٹش انڈیا کی طرف بھی1893ء میں امیرکابل عبدالرحمن کے ہاتھوں حتمی شکست کے بعد سے ہوئی۔ انگریزوں نے ابتدا میں انہیں سنجاوی کے قریب بسانے کا پروگرام بنایا، لیکن 1904ء میں ہزارہ پائنیر کی تشکیل ہوئی جسکا ہیڈکوارٹر کوئٹہ کینٹ (ہزارہ لین) مقرر ہوا جس کے بعد سنجاوی کی طرف بہت کم ہزارہ گئے۔غلام رضا باڈی بلڈر کا خاندان ان محدود چند خاندانوں میں ہے جن کی زمینیں اب بھی  سنجاوی میں ہیں۔اس کے بعد مختلف ادوار میں مہاجرتوں کے سلسلے جاری رہےجن کی تفصیل “ہزارہ اجتماعی مہاجرت کی داستان” میں بیان کی گئی ہے (تفصیلات کے لیے قارئین کرام مذکورہ مضمون کا مطالعہ کرسکتے ہیں)۔ یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ فی زمانہ پاکستان میں ہزارہ آبادی چھ لاکھ کے قریب ہے جن کی قاطع اکثریت کوئٹہ کے دوعلاقوں علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاون میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ سنجاوی ، دکی، لورلائی کے علاوہ شاید چند گھرانے ژوب میں بھی بود و باش رکھتے ہیں۔ اسی طرح پاڑہ چنار خیبر پختونخواہ، گلگت شمالی علاقہ جات، کراچی، حیدر آباد اور سانگھڑ سندھ میں بھی ان کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں۔ شمالی علاقہ جات کو ڈوگرہ راج کے چنگل سے آزاد کرانے اور انہیں پاکستان میں شامل کرنے کی تحریک میں مرحوم محمدعلی چنگیزی نے کلیدی کردار نبھایا تھا جو  وہاں کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

 ہزارہ پائنیر بنیادی طورپرایک انجنئرنگ یونٹ تھا جس نے کوئٹہ-ژوب، ژوب-دانہ سر، کوئٹہ-چمن، کوئٹہ-سبی روڈ تعمیرکرنے میں کلیدی کردارادا کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہزارہ پائنیرنوشکی، دالبندین، تفتان، زاہدان،کرمان، سیستان کے راستے عراق گیا۔ چونکہ اس زمانے میں امیر کابل کے حکم پر ہزارہ مہاجرین کے افغانستان چھوڑنے پر پابندی تھی اس لئے ہزارہ خواتین کا آنا تقریباً ناممکن تھا۔ چنانچہ ہزارہ پائنیرکے جوانوں کی ایک بڑی تعداد نے سیستانی بلوچ جو عقیدے کے لحاظ سے شیعہ ہیں کے ہاں شادیاں کیں جو کہ ایک اہم سماجی قدم تھا۔

ہزارہ پائنیر کا شمار برصغیرکی اہم ترین پائنیرز میں ہوتا تھا۔ ڈسپلین،حربی شعبوں، شوٹنگز (نشانہ بازی) اور مختلف کھیلوں میں مہارت کے حوالے سے اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس ضمن میں برگیڈیر بنبری کی لکھی کتاب “ہزارہ پائنیرکی مختصرتاریخ” پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اگرچہ مالی مسائل کی وجہ سے دیگرپائنیرزکے ساتھ ہزارہ پائنیر کو بھی 1933ء میں ختم کردیا گیا تاہم اس کے اثرات ہزارہ سماج پر تا دیرقائم رہے۔ کھیل کے مختلف شعبوں ہاکی، فٹبال، شوٹنگز وغیرہ میں  ہزارہ کھلاڑی سالوں متحدہ ہندوستان اور بعد ازآں متحدہ پاکستان کے چمپیئن رہے اور تمام تر اونچ نیچ کے ساتھ ابھی تک یہ سلسلہ قائم ہے۔ ان کی اعلیٰ کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت متحدہ ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ جبکہ ہزارہ آبادی محض چند ہزار تھی لیکن اس کے باوجود وہ کئی شعبوں میں چپمپیئن رہے۔

Bibliography:  

  •  Awhidi, Jalal, .Tarkib-i-Qabayel dar sakhtar e Milli e Milliyat e Hazaraha،Quetta 2010.          
  •  Afghan Boundary  Commission Report Vol-IV, Simla 1888
  • Temur, Khanov, Tarikh e Hazara Mughal, Urdu, Quetta, 1992.
  • Uruzgani, Mullah Afzal. Al Mukhtasar Al Manqool Fi Tarikh e Hazara wa Mughul. Quetta: Pakistan ., 1914.
  • Tarikh e Hazara by Ustad Raja Khan, Haripur Hazara, 1998

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *