پروفیسر صدف چنگیزی، ایک تعارف
پروفیسر صدف چنگیزی کا اصل نام غلام عباس ہے، جبکہ صدف تخلص کرتے ہیں۔ آپ 24 جون 1960 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے اردو، اور فارسی میں ایم اے کیا، اور اس کے بعد درس اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور تاحال فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ کینٹ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ صدف چنگیزی نے استاد رشید انجم سے اصلاح لینا شروع کی، استاد رشید انجم (مرحوم) نے دبستان بولان کی بنیاد رکھی۔ ان کی رحلت کے بعد پروفیسر صدف چنگیزی دبستانِ بولان کے صدر منتخب ہوئے اور تاحال اس ادبی تنظیم کی سرپرستی کررہے ہیں۔
صدف چنگیزی کے کلام میں بیان کی ندرت، دہکتے ہوئے خیالات، الفاظ کی نشست و برخاست اور مخصوص رنگ نمایاں ہے جو انہیں بلوچستان کے دیگر شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ مرتبہ کتب میں 1 – “بیاباں کا سکوت” (غزل) (استاد رشید انجم) 2 – بقائے معرفت (مرثیہ) )استاد رشید انجم 3 – اونچی اڑان (مجموعہ) ظفر ہدف شامل ہیں۔ 1 جبکہ گوہرِ یک دانہ (اردو شاعری) 2 چشمِ نم (فارسی شعری مجموعہ) 3 دُرِ یتیم (نعتیہ مجموعہ) 4 ربِ کعبہ (حمدیہ مجموعہ) 5 دُرِ نجف (منقبت و سلام) 6 جستہ جستہ (اردس مضامین) 7 استاد رشید انجم (فن اور شخصیت) 8 میر کی اردو اور فارسی شاعری کا تقابلی جائزہ 9 جگر خون کروں ہوں میں استاد رشید انجم کا نثری مجموعہ زیرِ ترتیب ہیں۔ جو جلد ہی منظر عام پر نمودار ہوں گی۔
پروفیسر صدف چنگیزی اپنے ہم عصر شعراء میں اسلئے بھی الگ مقام رکھتے ہیں کیونکہ آپ کی شاعری گھسے پٹے موضوعات اور روایتی مضامین سے ہٹ کر ہے۔ چونکہ شاعری کا اسپِ دلاویز بہت تیزی سے محوِ سفر ہے اور شاعری کو نئے نئے جزیروں سے روشناس کرارہا ہے اسلئے شعر و ادب کا علاقہ پھیلتا جارہا ہے اور نت نئی زمینیں دریافت ہورہی ہیں۔ مغوی شاعری اب مخصوص نظریات کے چنگل سے آزاد ہوچکی ہے۔ اس لئے تقاضا کرتی ہے کہ فرسودہ نظریات اور پائمال خیالات و افکار سے اسے دور رکھا جائے سو جن شعراء نے جدید غزل کی اس درخواست کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ادبی قرض سمجھ کر اسے ادا بھی کرتے آئے ہیں، غزل ان پر مہربان بھی ہوئی اور اس نے اپنی کچھ مخفی دنیائیں بھی آشکار کیں۔
پروفیسر صدف چنگیزی بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہے جو بلوچستان کی سنگلاخ زمینوں میں پلا بڑھا ہے اور انکی شاعری میں بھی آپ کو اس دھرتی کی خوشبو سفر کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔
پروفیسر صدف چنگیزی کے چند معروف اشعار ملاحظہ ہوں
- آگ بھڑکی عشق کی دونوں طرف دھوپ میں، میں جل گیا سائے میں تو
- گزر رہی ہے سلیقے سے عمرِ ناکامی کمالِ بے ہُنَری کو ہنر بناتے ہوئے
- یہ چاہتے ہیں کہ جذبوں میں اعتدال رہے خوشی کے گرد غموں کا حصار کھینچتے ہیں
- یہ حوصلہ بھی قیامت سے کم نہیں ہے صدف کہ ہم نے منبرِ کوفہ سے ذکرِ یار کیا
Latest posts by اظہار (see all)