محترم و مکرم ایم پی اے صاحب، حلقہ پی بی 27، کوئٹہ
حالیہ مچھ والے واقعہ کے تناظر میں آپ کی ایک ادنٰی سی ووٹر اور آپ کی پارٹی کی پرانی حامی، چند گزارشات، شکایات اور سوالات ذہن میں لیے آپ سے مخاطب ہونے کی جسارت کر رہی ہے۔
گو کہ سوال کرنا شاید آپکو پسند نہیں مگرچونکہ اب بات پسند نا پسند سے کافی آگے بڑھ چکی ہے لہذا آواز اٹھانا اور سوال کرنا بھی فرض ہو گیا ہے۔ توعرض یہ ہے کہ گزشتہ رات سوشل میڈیا پہ ایک کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ہمیشہ کی طرح قوم کے تمام اکابرین کسی سانحہ کے بعد اپنا لائحہ عمل بیان کر رہے تھے۔ دیگر کو چھوڑ کر میرا سارا فوکس آپ پر ہی رہا کیونکہ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہاں جو شخص لوگوں کے ہجوم سے مخاطب تھا وہ آخراتنا سہما ہوا، پریشان اور کنفیوزڈ کیوں ہے؟ چہرے اور باڈی لینگویج الغرض کسی بھی زاویہ سے وہ ایک مضبوط قوم کا لیڈر تونظر نہیں آرہا تھا بلکہ ایک تھکا سا، ڈرا ہوا، مجبور اور بے بس شخص لگ رہا تھا جس کے پاس ہاتھ ملنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔
میں کچھ دیر سوچ میں ڈوبی رہی کہ آخر کہاں غائب ہوگیا وہ شخص جسے ہم اس انتخابات سے پہلے دیکھتے تھے، گرج دار آواز، پر اعتماد گفتگو، نڈر اور اپنے ہر پلان میں کلیئر۔ پھر ماضی سے نکل کر جب حال میں آئی تو وہی شہدا کے پرچم میں لپٹے جنازے اور ہمارا دھرنا۔
سر! مانا کہ حالات ناگوار سہی مگر آپ نے تو اس سے بھی ناموافق حالات کامقابلہ بڑی مستعدی سےکیا ہے۔ اور جتنا مجھے یاد ہے ملک کے تمام مشکل اینکر پرسنز کو تسلی بخش جواب دینا تو آپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوا کرتا تھا۔ آخر اب ایسی کیا مشکل آن پڑی کہ آپ کو اپنے ہی لوگوں سے منہ موڑنا پڑ رہا ہے؟۔ اگر میں غلط نہیں، تو آپ کی خود کی ساری زندگی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے اور بحث و مباحثے میں ہی گزری ہے۔ پھر نئی نسل کے سوالات کا سامنا کرنے کے بجائے پیٹھ دکھا کر انھیں مایوس کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟۔ یقینا آپ یہ بھول رہے ہیں کہ ان سب کے اعتماد اور قیمتی ووٹوں ہی کی بدولت آج آپ اس اہم منصب پہ فائز ہیں۔ پر ہاں یاد آیا! پہلے تو آپ” ناکام صوبائی حکومت ” نام کی گولی ان تمام زخمی دلوں کو دے کر اپنی سیاست چمکا کر ایک تیر سے دو شکار کر دیا کرتے تھے۔ چونکہ ابھی آپ ایسا کر نہیں سکتے لہٰذا فرار غنیمت سہی۔
جناب عالی ! اگرمیری یہ تحریر آپ کی نظروں سے گزرے اور اتفاقا آپ اسے پڑھ بھی لیں تو شاید یہ آپ کی صحت پر کوئی خوشگوار اثرات مرتب تو نہ کرے لیکن میں اور کیا کروں!؟ اور کر بھی کیا سکتی ہوں؟ کس سے فریاد کروں؟ میری تو ساری امیدیں آپ نے یہ کہہ کر مٹی مٹی کر دیں کہ آپ حکومتی بیانیہ کا دفاع کریں گے۔
ارے سر! اصولا تو آپ کو ان لوگوں کا دفاع کرنا چاہیے جو پچھلی دو دہائیوں سے ظلم و بربریت کا شکار رہے ہیں۔ جن کے گھرکے گھر ویران اور قبرستان آباد ہیو گئے۔ جن کے گھر میں جنازے اٹھانے کےلیے مرد نہیں بچے۔ جنھوں نے امید کرکے آپ کو ووٹ ڈالا تاکہ آپ ان کے دن اور رات بدل دیں۔ مگر آپ کی تو چال ہی نرالی۔ تو کیا میں یہ سمجھوں کہ آپ واقعی انہی قوتوں کا دفاع کر رہے ہیں جو دراصل آپ کی اس کرسی کے پیچھے ہے یعنی وہی سیلیکٹڈ ناٹ الیکیٹڈ والا گیم؟
خیر! یہ گتھی تو بعد میں سلجھتی رہے گی۔ ابھی تو رہ رہ کے ان گیارہ خاندانوں کا خیال آتا ہے جنہوں نے اپنے بھائی، شوہر، بیٹے اور باپ کی شکل میں اپنے واحد کفیل اس ریاستی دہشتگردی میں کھو دئیے۔ جن کو یہ تک نہیں پتہ کہ آخر انھیں اس بے دردی سے کس نے اور کیوں مارا۔ ملکی مفاد اور کولیٹرل ڈیمیج جیسے الفاظ سے نابلد یہ معصوم لوگ اپنے اہل و عیال کی کفالت کی غرض سےاپنے پیاروں سے کوسوں میل دور زمین سے کالا سونا نکالتے نکالتے اس خوفناک گریٹ گیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب انہی روایتی وعدوں اور جھوٹ موٹ کی تسلیوں کے بعد ان کے لواحقین اپنی باقی ماندہ زندگی زندہ لاش بن کر اپنے پیاروں کی یادوں کے سہارے بسر کریں گے اور باقی قوم ہر سال ان کی برسی پر ایک دو نعرے لگا کر منایا کرے گی اور بس ختم۔
ایم پی اے سر! میں ہرگز ہرگز آپ کو اس واقعے کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہی مگر ہاں اس قوم اور اس نئی نسل کی گمراہی کے ذمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں۔ جھوٹے دعوؤں اور نعروں سے آپ بے شک اپنی الیکشن مہم تو جیت گئے مگر مجھ سمیت بیشترجوانوں کی ساری امیدیں اور توقعات اپنے پیروں تلے روندھ گئے ۔ الحمد للہ اب دھند کا غبار چھٹ چکا ہے اور یہ سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ہمارے قتل عام کی ذمہ دار نہ تو صوبائی حکومت ہے اور نہ ہی ہمارے قاتل نامعلوم ہیں۔ بلکہ یہ تو ایک جانی مانی خلائی قوت ہے۔ تو خدارا ! ہمت کریں، نئی نسل کو اب مزید گمراہ کرنا چھوڑ دیں ۔انھیں ان کے قاتل سے روشناس کرائیں۔ انہیں اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی بقا کی جنگ خود لڑ سکیں۔ جھوٹ اور دھوکے کی سیاست ہماری کئی نسلیں تو کھا چکی اب نئی پروان چڑھنے والی نسل کی فکر کریں۔ ان کے مستقبل کا غم کھائیں ورنہ یہ پکتا لاوا کل سب کے قابو سے باہر ہو جائے گا۔
اللہ آپ کو، آپ کے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام قوم کی خیر خواہ
راحیلہ بتول
- بھپرا ہجوم ۔۔۔ راحیلہ بتول - 17/09/2023
- چراغ تلے اندھیرا ۔۔۔ راحیلہ بتول - 20/04/2023
- اتوار کا دن۔۔۔ راحیلہ بتول - 30/08/2021