کاش ہم انہیں ہسپتال لے جاتے! ۔۔۔ راحیلہ بتول

٭

یوں تو ہمیشہ کسی نہ کسی واقعہ نے مجھے قلم اٹھانے اور اپنا درد دل بیان  کرنے پر مجبور کیا ہے لیکن آج سےپہلے کبھی اتنی ہمت نہیں جٹا پائی کہ اپنے خیالات کا سامنا کر سکوں اور دل و دماغ میں اٹھنے والے ان لفظوں کے طوفان کا مقابلہ کر سکوں۔ یقینا اب آپ یہی سوال کریں گے کہ پھر آج ایسا نیا کیا ہو گیا جس نے مجھے لکھنے پر مجبور کر دیا تو جواب میں ایک ہی جملہ کہوں گی “جب تک خود پہ  نہ ییتے درد کا احساس نہیں ہوتا “ اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

رشتے میں تو وہ میرے خالو لگتے تھے لیکن انتہائی پیار، محبت اور شفقت میں وہ میرے والد سے کسی قدر کم نہیں تھے۔ ملنسار، جوش اخلاق، خوش گرفتار اور غریب پرور اتنے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ شادی کےکئی سال گزرنے کے باوجود ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی لہذا میں اور میرے بہن بھائی ان کی اولاد جیسے ہی تھےاور اسی کمی کو دور کرنے کے لیے وہ اکثر اپنا فارغ وقت خاندان کے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں صرف کرتے تھے۔ پھر چونکہ خدا نے ہمیں ایک ہی خالہ سے نوازا تھا اس لئے ہمارا ان کے ساتھ لاڈ پیار بھی ذرا بے نظیر ہی تھا۔

 خیر زندگی بہت خوبصورت اور خوش و خرم گزر رہی تھی کہ اچانک ایک انجان وائرس نے پوری دنیا میں کھلبلی مچا دی۔ دیگر انسانوں کی طرح ہماری طرز زندگی میں بھی بہت بدلاؤآیا۔ مگر شاید صرف یہی تبدیلی کافی نہیں تھی کہ قدرت نے ہماری زندگیوں میں ایک ایسا  خلا اورguilt  پیدا کر دیا جو کہ  اب شاید ہی کبھی ختم ہو سکے۔

رات کے ڈھائی بجے جب ساری دنیا سکون، خاموشی اور نیند کا آنچل اوڑے ہوتی ہے اچانک مجھے میری خالہ کا فون آتا ہے کہ اپنی امی اور ابو کوبھیجو، تمہارے خالو کی طبیعت کافی خراب ہے۔ یاد رہے کہ پہلے بھی کئی بار انہیں الرجی اور اس کے نتیجے میں رات کے وقت سانس کی تنگی کی شکایت رہ چکی تھی۔ مزید یہ کہ دو دن پہلے بھی ان کو بخار اور سینے میں تکلیف کا احساس ہوا تھا جسے ہم سب نے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا اور اب تیسری رات  ان کی طبیعت بہت ہی بگڑ گئی تھی۔ وائرس کی موجودگی کے پیش نظر، امی اور ابو کو گھر پہ چھوڑ کر میں اور میرا بھائی وہاں پہنچے تو واقعی ان کی حالت بہت خراب تھی۔ پسینے میں شرابور انہیں سانس لینے میں دقت کا سامنا ہو رہا تھا۔

میں نے مشورہ دیا کہ فورا ہسپتال لے جاتے ہیں تاکہ بروقت بیماری کا پتہ چل جائے مگر پچھلے چند دنوں سے ہسپتال اور ڈاکٹروں سے متعلق جو افواہیں اور سچی داستانیں گردش کر رہی تھیں ان کے سبب خاندان کے بڑے بضد تھے کہ گھر میں ہی کچھ نہ کچھ کر کے انھیں ٹھیک کروا لیا جائے۔ اول تو سب نے فرض کر لیا کہ ان کو وائرس والی بیماری ہو گئی ہے کیونکہ سانس مشکل سے آرہی تھی۔ چلو بھئی آکسیجن سلنڈر کا بندوبست کیا گیا،جو کسی کورونا کے مریض کا تھا۔ اور پھر کیا! جھٹ پٹ مصنوعی سانس دینے کا عمل شروع ہو گیا۔ بغیر یہ جانے کہ ان کا آکسیجن کس لیول پر ہے اور میڈیکلی کب اور کتنے لیول تک گھر میں آکسیجن مہیا کرنا محفوظ ہو سکتا ہے، ہم  اندھا دھند آکسیجن سپلائی کرتے رہے مگر ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے بگڑتی چلی گئی۔

خیر جب دن ذرا کھلنے لگا تو میں نے پھر تجویز دی اور بارہا درخواست کی کہ ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں شاید ان کا علم ہم سے ذرا زیادہ ہو اور ان کی طبیعت سنبھل جائے۔ مگر سامنے سے جواب آتا کہ وہ تو انہیں مار دیں گے، زہر کا ٹھیکہ لگا دیں گے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا۔ یعنی ثابت ہو گیا تھا کہ میری بات کسی نے نہیں سننی۔ لہذا حسب عادت اور ضرورت ہر ایک نے کبھی ڈاکٹر اور کبھی زبیدہ آپا بن کے طرح طرح کے مشورے دیئے اور میری خالہ گھبراہٹ کے عالم میں دل میں یہ امید لنے کہ شاید یہ ٹوٹکا کام کر جائے یا شاید وہ والا جادو اثر دکھا جائے، ننگے  پیر عمل پیرا رہی۔ حتی کہ وہ لمحہ بھی آگیا جب آکسیجن سلنڈر بھی فیل ہو گیا اور اب دوپہر کے تین بجے ایمبولینس کی تلاش شروع ہوئی۔ کیونکہ خالو مکمل طور پر بے ہوش ہو چکے تھے اور ان کے ایک قریبی عزیز ان کے منہ سے کلمہ جاری کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔

المختصر، آیمبولینس پہنچی تو سہی مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور رہی سہی کسر ٹریفک جام نے پوری کر دی۔ مانا دیگر اقوام کی طرح ہم مہذب اور ترقی یافتہ ہر گز نہیں ہیں لیکن انسانیت کے درجے سے بھی اتنا گر چکے ہیں یہ مجھے اس دن پتہ چلا جب لوگ ایمبولینس کو راستہ دینے کے بجائے خود اس سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ شاید ان سب کا یہی مقصد تھا کہ کہیں ایمبولینس کے اندر موجود شخص بچ نہ جائے۔  ہوا بھی یہی اور مطلوبہ ہسپتال تک پہنچنے سے پہلے میرے خالو نے ایمبولینس میں ہی اپنی جان دے دی۔ یوں اپنی بے وقوفی، کم عقلی،نا سمجھی اور بے بسی کی وجہ سے ہم نے انھیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا ۔ چونکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آخر انھیں ہوا کیا تھا، ہم نے اپنی خالہ سمیت  گھر کے چھ، سات افراد کا کو رونا کا ٹیسٹ  کروایا تاکہ بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کر کے دیگر لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔ مگر کمال حیرت کہ سب کا رزلٹ منفی آیا ۔

خالو تو چلے گئے مگر ان کی اچانک موت بہت ساری الجھنیں، اور سوالات جنم دے گئی۔ اگر انھیں بروقت کوئی اچھا ڈاکٹر مل جاتا، اگر انکا علاج شروع ہوجاتا، سارے ضروری ٹیسٹ ہو جاتے، chest  x- ray  ہو جاتا تو شاید مرض کا پتہ چل جاتا۔ کیا ضروری ہے سانس کی بندش صرف وائرس کے مریضوں کو ہی ہو!؟ کوئی اور مسئلہ بھی تو ہو سکتا تھا۔ اور اگر اس کی بروقت تشخیص ہوجاتی تو شاید آج وہ ہمارے ساتھ زندہ ہو تے۔ مگر بد قسمتی سے ہسپتالوں  کی حالت بھی تو نا گفتہ بہ ہے۔ اگر واقعی وہ کسی ڈاکٹر کے انجیکشن سے مارے جاتے پھر! پھر کیا ہوتا؟  ایک اور guilt زندگی بھر کا نا سور بن جاتا کہ کاش ہم  انہیں ہسپتال نہ لے کرجاتے۔ تو کیا اس خوف کی وجہ سے ہم اپنے پیاروں کو درد اور تکلیف میں مرنے کےلیے چھوڑدیں؟ انھیں تڑپتا،  بلکتا اور مرتا ہوا دیکھتے رہیں۔ آخر کب تک یہ تماشا لگتا رہے گا؟ کب تک ہم اپنی اور دوسروں کی خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کی سزا اپنے پیاروں کو دیتے رہیں گے؟

راحیلہ بتول

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *