شادروان محمدعالم مصباح نے نومبر 1967ء کو ایک ہزارہ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد عبدالحسین نے ان کی پیدائش کے تین مہینے بعد وفات پائی۔ اس طرح والدہ کو، چار بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بڑے بھائی نے 5 سال کی عمر میں ننھے عالم کو ان کے بہنوئی کے پرچون اسٹور میں کام پر بٹھا دیا لیکن ایک سال بعد دوسرے بھائی، محمد ظاہر نے اسے یٹ روڑ پرائمری سکول میں داخل کروادیا کیونکہ اس وقت ان کا گھرانہ مالی باغ میں ایک کرایے کے مکان میں رہائش پذیر تھا۔ اسی نسبت سے عالم، اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ محمد ظاہر سے قریب تھا۔ پرائمری پاس کرنے کے بعد انہوں نے ٹیکنیکل ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ آگے چل کر جب ان کا گھرانہ مومن آباد منتقل ہوا تو انہوں نے بھی 1980ء میں یزدان خان ہائی سکول میں داخلہ لیا۔
1982ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد گھریلو حالات کے سبب واپڈا میں ملازمت شروع کی لیکن چونکہ انہیں عِلم و دانش سے حد درجہ لگاو تھا اس لئے پرائیویٹ امیدوار کے طور انٹر پاس کرنے بعد انھوں نے 1984ء میں نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور ڈگری کالج میں داخلہ لیا۔
1986ء میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں ایڈمیشن لیا۔ انتھک محنت کی اور امتحانات سے کئی مہینے پہلے، روزانہ شام 5 بجے تک یونیورسٹی کی مرکزی لائیبریری میں اور پھر گھر آکر اکثر صبح فجر کی اذان تک پڑھتے رہتے۔ اسی لئے اپنی ماسٹر ڈگری فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن لے کر حاصل کی اور پھر سال 1993ء میں اسی فلاسفی ڈیپارٹمینٹ میں لیکچرر مقرر ہوئے۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ میٹرک کے بعد وہ تقریباً دو سال تک جامع امامیہ اور الخوئی دینی مدارس میں بھی زیر تعلیم رہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنے نام کے ساتھ “مصباح” کا لقب استعمال کرنا شروع کردیا یعنی محمدعالم سے “عالم مصباح” بن گئے۔
مدرسہ تعلیم کے دوران سے ہی ان کا زیادہ تر رجحان منطق، فلسفہ اور ایک حد تک شعر و ادب کی طرف تھا۔ فلسفہ و منطق کے ساتھ ساتھ انہوں نے فارسی اور انگریزی زبانوں پر بھی بھرپور توجہ دی۔ ہماری شناسائی اور پھر گہری دوستی کا آغاز بھی یہی سے ہوا جو ان کی ناگہانی موت تک قائم رہا۔
محترم نبی حجازی، شادروان عالم مصباح کے ہائی سکول کے کلاس فیلو اور قریبی دوست رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ “مصباح آئی کیو کے اعتبار سے درمیانے لیول کے تھے، لیکن علم و دانش سے چونکہ ان کو بے پناہ لگاو تھا اس لئے اس راہ میں وہ اپنی پوری طاقت اور توانائی لگا لیتے تھے اور اکثر راتیں جاگ کر کتاب خوانی میں گذارتے تھے۔
حجازی اور مصباح کو کتاب خوانی کی عادت شروع سے تھی۔ حجازی کے بقول دونوں اکثر اپنے سکول جیب خرچ کی بچت کرکے بچوں کی کتابیں، کہانیاں وغیرہ خرید کر پڑھتے تھے اور پھر ان پر گھنٹوں بیٹھ کر تبصرہ کرتے تھے۔ گرمیوں کے دوران یہ بیٹھک کبھی کبھی صبح صادق تک جاری رہتی تھی۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ہائی سکول کے دور سے ہی ان دونوں میں شعر و شاعری کا ذوق پروان چڑھنے لگا تھا۔ چونکہ اردو میں پڑھتے لکھتے تھے لہذا اردو میں ہی شعرگوئی کرنے لگے۔ ابتداء میں میدانی یا پھر پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو اپنا تازہ کلام سنایا کرتے تھے۔ ان دنوں مصباح، شعری اصلاح شادروان محمدعلی اختیار سے لیتے تھے۔ اسی طرح اپنی انگریزی میں بہتری لانے کے لئے وہ ایک طرف (پی اے سی سی) میں داخلہ لینے کے ساتھ ساتھ مرحوم بابو نبی کے ہاں بھی جاتے تھے جن کی انگریزی کافی اچھی تھی۔ انکا تعلق پاڑہ چنار ہزارہ سے تھا”۔
مصباح فارسی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ ان کے درجن بھر فارسی اشعار، مضامین اور تراجم اس ضمن میں ثبوت کے لئے کافی ہیں۔ فارسی پر عبور بھی انہوں نے اپنی انتھک محنت، مطالعہ اور مشاہدے کے بل بوتے پر حاصل کی۔ اس ضمن میں وہ کبھی کبھار اصلاح کے لئے شادروان استاد قسیم اخگر سے رجوع کرتے تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں جدوجہد والے سیلف میڈ انسان تھے۔
جاری ہے.
- سانحہ 6 جولائی 1985 ۔۔۔ اسحاق محمدی - 25/09/2024
- محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی - 05/09/2024
- عالم مصباح (1967- 1994). دوسری قسط۔۔۔ تحریر۔ اسحاق محمدی - 27/08/2024