محمدعالم مصباح (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی 

شخصیت

شادروان عالم مصباح چھوٹے قد مگر تنومند جسم کے حامل تھے۔ نرم خو تھے اور سادہ مزاج رکھتے تھے۔ عام بات چیت میں دھیما لہجہ رکھتے تھے لیکن علمی اور سیاسی موضوعات پر قدرے بلند لہجے اور مدلل انداز میں بات کرتے تھے۔ اس دوران اکثر ایک ہاتھ کمر پر رکھتے تھے۔ تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کے پلیٹ فارم سے بغیر ممبر بنے جبکہ ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے پہلے ایک ممبر اور بعد آزآں بحیثیت سیکریٹری جنرل کافی متحرک رہے۔ فیڈریشن کی اپنی میٹنگز، آغیلی اور عوامی اجتماعات میں ہمیشہ پیش رہتے۔ لباس وغیرہ میں حد درجہ لاپروا تھے۔ مطالعے کا جنون تھا، فلسفہ، شعر و ادب سے زیادہ لگاؤ رکھتے تھے۔ ہائی سکول دور میں داستان، طنز و مزاح وغیرہ کے ساتھ ریگولر ڈائجیسٹ پڑھتے تھے۔ بی بی سی فارسی کے لطف علی خنجی کو اتنا پسند کرتے تھے کہ “مرزا قلم” کے نام سے ان کی طرزپر طنز لکھنے لگے تھے۔ اپنے مزاج اور موڈ کے حساب سے عمدہ لکھتے تھے لیکن اگر کسی خاص موضوع پر ان سے لکھنے کا کہا جاتا تو مشکل سے آمادہ ہوتے۔ مصباح کو چونکہ برنامہ ہزارہ گی ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں ہزارہ گی مکالمہ اور ڈائیلاگ لکھنے کا کافی تجربہ تھا اس لئے انہوں نے شہید حسین علی یوسفی اور قیس یوسفی کے ہزارہ گی ڈراموں میں اپنےاس تجربے کو کامیابی سے استعمال کیا۔ وہ فالتو اوقات میں بنڈار، پکنک اور واک کے دلدادہ تھے۔ ہماری زیادہ بھیٹکیں زمان دہقانزادہ کے ہاں لگتی تھیں اس دوران مصباح، دہقانزادہ، عزیز تبسم اور نسیم جاوید شطرنج کھیلتے اور میں تماشائی بنا رہتا تھا جبکہ مئی تا اگست ہنہ اوڑک اور ستمبر تا جنوری اکثر چھٹیوں کے دن قلی کیمپ کے پہلو میں واقع درہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ وہاں پسندیدہ گیم لڈو تھا جس میں سبھی شریک ہوتے۔ آوٹ ڈور پکنک کے دوران کبھی کبھار وہ چھوٹے بچوں کی طرح حرکتیں کرتے۔ مثلاً چپکے سے چائے میں نمک یا پھر سالن میں چائے ڈال لیتے تھے۔ باقی دوست غصہ ہوجاتے تو وہ خوب انجوائے کرتے۔ وہ، زمان دہقانزادہ، عزیز تبسم سے اکثراور کبھی کبھی زمان ٹھیکیدار سے خوب نوک جونک کرتے رہتے۔ ایک دفعہ ہم علمدار روڑ کے دوستوں نے اچانک سے پیر غائب جانے کا پروگرام بنالیا۔ اس وقت مصباح ہزارہ ٹاؤن شفٹ ہوچکے تھے۔ ہم ایک ڈاٹسن کے ذریعے سیدھے ان کے گھر پہنچے اور دروازے پر دستک دے کر ان کو باہر بلالیا۔ مصباح ایک چادر اور سرپئی کے ساتھ ہمارے ہمراہ چل پڑے۔

1993ء میں بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر بننے اورمالی لحاظ سے ایک حد تک اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے بعد مصباح کی پوری کوشش رہی کہ وہ اپنے پورے کنبے کا سہارا بنے اور ان کو بھی آگے لے کر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے پل حسن پر واقع گھر کو فروخت کرکے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بڑا پلاٹ لے لیا اور اپنا حصہ لئے بغیر تینوں بھائیوں کے لئے علیحدہ مکانات تعمیر کرکے ان کے حوالے کردیا۔ یونیورسٹی کی پچھلی سڑک پر منجھلے بھائیوں محمد ظاہر اور زوارعلی کے لئے ریسٹورنٹ کھولا، بڑے یعنی قاتل بھائی، ابراہیم کے بچوں کے تعلیمی اخراجات بشمول ٹیوشن فیس بھرنے کا ذمہ اٹھایا، الغرض جو کچھ  ان سے بن سکتا تھا آخری سانس تک کرتے رہے۔

مصباح ایک لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کے چند قریبی دوست آخری سانس تک ہر دکھ سکھ میں ان کے ساتھ رہے اور ان کے بے وقت جانے کے بعد بھی ان کے افکار اور خدمات کو نئی نسل تک پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے۔ تواتر سے ان کی برسی منانا، ان کی یاد میں سیمینار رکھنا اور مصباح نامہ کی اشاعت اس ضمن میں قابل ذکر ہیں جب کہ سابقہ ایم پی اے ہزارہ ٹاؤن جناب قادرنائل نے مصباح کے نام سے ایک لائبریری بھی قائم کی ہے جو قابل تحسین ہے۔ لیکن اس لحاظ سے وہ بد قسمت بھی تھے کہ ایران نواز سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ ان کے بعض ہم فکر نیشنلسٹ افراد جیسے تنظیم نسل ہزارہ مغل کے سابق چیرمیئن غلام علی حیدری اور  چند دیگر نے بھی محض سلیقہ ای اختلافات کی آڑ میں مصباح کی کردار کشی کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ بلا شبہ ان کی بے وقت موت نہ صرف خود ان کے لئے بلکہ ان کی فیملی اور پوری ہزارہ قوم کے لئے بھی ایک ناقابل تلافی نقصان تھی اور رہے گی۔

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *