نوروز ایک موسمی تہوار ۔۔۔ اسحاق محمدی

نوروز ایک موسمی تہوار ھے جو موسم سرما کے گذرجانے اور موسم بہار کی آمد کی خوشی میں مرکزی ایشیا، وسطی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا سمیت روس، چین اور بالقان کی بعض ریاستوں اور دنیا بھر میں رہنے والے 300 ملین سے زائد لوگ بلاتفریق رنگ، نسل، زبان عقیدہ پورے جوش وخروش سے ہر سال 21 مارچ کو مناتے ہیں۔۔ 1988 میں سات ممالک نے مشترکہ طور پرعالمی ادارہ یونیسکو میں اسے ایک کلچرل تہوار کے طور پر درج کروایا لیکن بعد از آں 1993 میں پانچ مزید ممالک نے بھی اس میں شمولیت کی درخواست دے دی جسے یونیسکو نے تاریخی شواہد کی موجودگی میں قبول کرلیا۔ یوں اب نوروز تہوار ایک وسیع جغرافیائی ریجن کے ممالک میں افغانستان، ایران، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمنستان، تاجیکستان، قزاقستان، قرغیزستان، ترکی، عراق، پاکستان اور ہندوستان رسمی طور پر جبکہ روس، چین، منگولیا اور بعض بالقان ریاستیں غیر رسمی طور پر شامل ہیں۔ نوروز کا مشترکہ سلوگن “باہمی احترام اور پایدار ترقی ہے”۔
ہزارہ قوم بھی جشن نوروز، جوش و خروش سے مناتی ہے۔ ہزارہ جات میں لوگ اس دن سب سے پہلے اپنے مرحومین کے قبور پر فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں۔ بعد از آں اپنے مال مویشیوں کو ان کے مخصوص گرم باڑے “قوتو” سے باہر نکالتے ہیں اور گھڑ دوڑ، بُزکِشی، گیراگ زنی ( بندوق سے نشانہ بازی)، تیراندازی اور کُشتی وغیرہ کے ذریعے اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے جاہل اور متعصب طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت (1995-2001) اور حالیہ دور حکومت (اگست 2021 تا حال) میں “میلہ گل سرخ” کے نام سے مشہور جشن نوروز کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے منانے پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کے جاہل اور متعصب ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہی طالبان، پشتون نشین صوبے قندھار میں بالکل اسی طرح کے موسمی میلہ “جشن گل انار” اور ننگرہار میں میلہ “جشن گل نارنج” کو نہ صرف اسلامی قرار دیتے ہیں بلکہ ان کی باقاعدہ سرپرستی بھی کرتے ہیں، حالانکہ یہ سب میلے یعنی میلہ گل سرخ، میلہ گل انار اور میلہ گل نارنج، خاصیت اور نیچر کے اعتبار سے سب یکساں نوعیت کے یعنی موسمی ہوتے ہیں۔
بالکل اس طرح حالیہ سالوں میں نوروز کے حوالے سے پاکستان میں بھی طالبان کے نظریاتی وہابی مسلک سے وابستہ انتہاپسند ملاؤں نے نوروز منانے کے خلاف فتوا پردازیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ جبکہ اسی طرح بعض ایران نواز ملا اسے خالص شیعی تہوار ثابت کرنے کی جتن کررہے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک 21 مارچ امام علیؑ کی خلافت کے آغاز کا دن ہے اور اسکا منانا عین ثواب ہے جو کہ تاریخی لحاظ سے سراسر نادرست اور غلط ہے۔ اب یہ طے ہے کہ نوروز ایک خاص جغرافیہ کا نہیں ایک وسیع ریجن کا خالص موسمی تہوار ہے اور فی زمانہ 300 ملین سے زائد لوگ بلاتفریق رنگ، نسل، زبان عقیدہ پورے جوش وخروش سے اسے مناتے ہیں۔
اس امید کے ساتھ اپنے قارئین کو اور “باہمی احترام اور پایدار ترقی” کے سلوگن کے تحت جشن نوروز کی خوشیاں منانے والے تمام انسانوں کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

اسحاق محمدی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *