ذہن کیسے سیکھتا ہے ۔۔۔ جاوید نادری

سیکھنا ایک فطری عمل ہے، سیکھنے کے عمل کو یادگیری یا آموزش بھی کہا جاتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق سیکھنے کا عمل ماں کی کھوکھ سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ نوزائیدہ کا اپنی نوع کے طور طریقے کی پہچان کرنا اور گزرتے وقت کے ساتھ سیکھ کر انہیں انجام دینا بھی سیکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طرح کی سیکھ کو نقش گری “imprinting” کہتے ہیں۔ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں انجام دینے کے لیے بار بار کوشش کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں کئی بار غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں لیکن بالآخر وہ کام سیکھ لیا جاتا ہے۔ سیکھنے کے اس طریقے کو سعی و خطا “ٹرائل اینڈ ایرر” کہتے ہیں۔
کسی کو دیکھ کر نقالی کرنا یا اس کی نقل اتارنا ایک فطری رجحان ہے۔ یہ بعض انواع میں بقاء اور ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ انواع اپنی بقاء اور مہارت کے حصول کی خاطر اپنے سے بڑے اور بہتر اقرباء کی نقالی کرتے ہیں، کسی کو دیکھ کر اس کی نقل اتارنا سیکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ایک پیدائشی فعل ہے۔ چونکہ نقل کرنے کے لیے مشاہدہ ضروری ہوتا ہے اس لیے اسے مشاہداتی یا نقالی سے سیکھنے کا عمل بھی کہتے ہیں۔ زندگی میں کسی کو اپنے لیے ماڈل بنا کر اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کرنا اس کی حرکات و سکنات، نشست و برخاست، پوشاک، بالوں کا انداز، اور گفتگو کا سلیقہ اختیار کرنا (شعوری، لاشعوری) سب سیکھنے کے مختلف طریقے ہیں۔
اپنی ادراکی بصیرت کے استعمال سے اپنے گردوپیش کے ماحول کو سمجھنا اور اس کے مطابق خود کو ڈھالنا بھی سیکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے میں دماغ کے اندر وقوع پذیر ہونے والے سارے افعال (شعوری، لاشعوری) بشمول ادراک، فہم، سوچ، استدلال، یادداشت، توجہ، زبان، مسئلہ حل کرنا، سیکھنا اور فیصلہ کرنا شامل ہے۔ اندرونی ذہنی عمل سے سیکھنے کے اس طریقے کو وقوفی، ادراکی بصیرت یا کاگنیٹیو پروسیس کہا جاتا ہے۔ کسی کے کاگنیٹو پروسیس کے استعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح پہلے ماحول کا ابتدائی جائزہ لیتا ہے پھر اس کے اجزاء کی تفصیلات جمع کرتا ہے، اس کے بعد حاصل کی گئی معلومات کو اپنے ذہن میں نئے انداز سے ترتیب دیتا ہے اور ترتیب دینے کے بعد اس کی کیسے وضاحت کرتا ہے۔
ذہن کیسے کام کرتا ہے اس بارے میں قدیم یونانی فلسفیوں افلاطون سے لے کر ارسطو بعداً ڈیکارٹ، ہیوم، جان لاک، ہرمن ایبنگہاوس، میری کالکن اور ولیم جیمز نے اپنے اپنے نقطہ نظر واضح کیے ہیں۔ 1950 کی دہائی تک نفسیات پر زیادہ تر غلبہ “نفسیاتی تجزیہ” اور “بہیویرزم” کا رہا مگر 1960 کی دہائی میں کاگنیٹو انقلاب کے بعد سے یہ شعبہ کافی سرگرم ہے۔
کاگنیٹو پروسیس کے کام کرنے، اثر انداز ہونے اور متاثر ہونے میں مختلف عوامل کار فرما ہیں جن میں سے چند ایک کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
توجہ:- توجہ وہ کاگنیٹو پروسیس ہے جو ماحول میں ایک مخصوص محرک پر توجہ مرکوز کرنے کی قدرت رکھنے کو ظاہر کرتا ہے، لیکن کبھی کبھار توجہ میں کمی کے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً اکثر و بیشتر ہم کسی ایک چیز پر اس قدر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے ہونے والے کسی اور واقعے کو مکمل نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ اپنے گرد و پیش میں ہونے والے ہر واقعے پر توجہ مرکوز کرنا مشکل کام ہے۔
زبان:- زبان اور اس کی نشوونما (فصاحت و بلاغت) بھی کاگنیٹیو پروسیس کا حصہ ہے، یہ اپنے خیالات کو بولنے اور تحریری صورت میں لانے کی صلاحیت ہے زبان دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے علاوہ سوچ میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
سیکھنا:- سیکھنا بھی ایک خاص کاگنیٹو پروسیس ہے اس کی بڑی اہمیت ہے یہ نئی چیزوں، کاموں کو انجام دینے، معلومات کی ترکیب بنانے اور اسے پیشگی موجود علم کے ساتھ مربوط کرنے میں مؤثر ہے، نئی چیزیں سیکھنے کے لیے نئی معلومات اکٹھی کر کے اسے پرانی یادداشت کے ساتھ منسلک کر کے نئی چیزیں بنانا یا مرتب کرنا بھی کاگنیٹو پروسیس کا حصہ ہے۔
یادداشت:- یاد ایک اہم اور پیچیدہ کاگنیٹو پروسیس ہے جو معلومات کو ان کوڈ کرنے، ذخیرہ کرنے اور بازیافت کرنے کے لیے ضروری ہے یہ دنیا کے بارے میں ہماری اجتماعی اور انفرادی معلومات کو محفوظ اور قائم رکھنے کے لیے بے حد اہم ہے۔ طویل مدتی یادداشت مستحکم اور پائیدار ہوتی ہے اور برسوں قائم رہتی ہے جبکہ قلیل مدتی یادداشت کچھ پلوں تک ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ یاداشت بہت نازک ہوتی ہے۔ بعض یادداشتیں مٹ جاتی ہیں، بعض کو ہم بھول جاتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ واقعات کو یاد کرتے وقت ہم کچھ حصے بھول جاتے ہیں جنہیں دماغ اپنے آپ سے بھر دیتا ہے۔ اس کا مشاہدہ عمر رسیدہ افراد میں کیا جا سکتا ہے۔ غلط معلومات کے اثرات سے بعض اوقات ہمارے ذہن میں غلط یادداشتیں بھی تشکیل پاتی ہیں۔ ہم کیا یاد رکھتے ہیں، کیسے یاد رکھتے ہیں اور کیسے بھول جاتے ہیں، کاگنیٹو نفسیات میں اس کاگنیٹو پروسیس کو سمجھنے کے لیے دقیق تحقیقات جاری ہیں۔
درک کرنا:- یہ حواسِ کے ذریعے معلومات اکٹھی کرنے میں مدد دیتا ہے یہ معلومات ہم دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے اور جواب دینے میں استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ اپنے ارد گرد کی دنیا سے احساسات لیتے ہیں۔ آپ جو معلومات دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، ذائقہ، چھوتے ہیں اور سونگھتے ہیں وہ سب سے پہلے سگنل میں تبدیل ہوتا ہے جسے دماغ سمجھ سکتا ہے۔ ادراک کا عمل آپ کو اس حسی معلومات کو لینے اور اسے ایک سگنل میں تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے جسے آپ کا دماغ پہچان سکتا ہے اور اس پر عمل کر سکتا ہے۔ دنیا حسی تجربات کی لامتناہی تعداد سے بھری پڑی ہے۔ اس تمام آنے والی معلومات سے معنی نکالنے کے لیے دماغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بنیادی باتوں کو حاصل کر سکے. واقعات صرف ان اہم تصورات اور نظریات تک محدود ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔
سوچ:- یہ کاگنیٹو پروسیس کا لازمی جزو ہے جو لوگوں کو فیصلہ سازی، مسئلہ حل کرنے اور استدلال کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، جب بھی لوگ کسی بھی قسم کا فیصلہ کرتے ہیں، اس میں ان چیزوں کے بارے میں فیصلے کرنا شامل ہوتا ہے جن پر انہوں نے کارروائی کی ہے۔ اس میں نئی معلومات کا سابقہ علم سے موازنہ کرنا، نئی معلومات کو موجودہ خیالات میں ضم کرنا، یا انتخاب کرنے سے پہلے پرانے علم کو نئے علم سے تبدیل کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے.
کاگنیٹو جانبداری سوچ میں ایک منظم غلطی کی نشاندہی ہے یعنی صرف ان معلومات کی تصدیق کرنا جو ہمارے موجودہ عقائد اور فکر سے ہم آہنگ ہیں اور ان شواہد کو رد کرنا جو ہمارے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ دنیا اور لوگوں کو اپنے انداز سے دیکھنے اور سمجھنے کی ایک منظم غلطی ہے۔
جنیات:- سائنسی تحقیق کے مطابق ہمارے دماغ میں نیورو ڈی جنریشن (دماغی خلیوں کا خراب ہونا) کا دارومدار موروثی نیوروٹروفک فیکٹر کی سطح سے مشروط ہے یعنی کاگنیٹو فعالیت کا انحصار موروثیت سے بھی وابستہ ہے۔
کاگنیٹو پروسس کی فعالیت (cognitive function) کو جاننے کے لیے ماہرین نے ذہانت کی تین اقسام جنرلائزڈ یعنی عمومی، فلوئڈ یعنی سیال اور تقلیمی یعنی کرسٹلائزڈ ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے کاگنیٹو صلاحیتوں کی وضاحت، پیمائش اور مقدار درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمومی ذہانت تمام کاگنیٹو صلاحیتوں کے تحت ایک مشترکہ عنصر سے اخذ کی گئی ہے. سیال علمی”کاگنیٹو “صلاحیتوں سے مراد استدلال یا سوچ ، پروسیسنگ کی رفتار ، اور حاصل شدہ علم سے آزاد ، افسانوی حالات میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ کرسٹلائزڈ علمی صلاحیتیں اکتسابی علم پر مبنی ہیں جس میں زندگی بھر کے فکری علوم اور کامیابیوں کا جمع ہونا شامل ہے۔ اس کو اکثر علم اور الفاظ جیسی صلاحیتوں سے ناپا جاتا ہے۔
کاگنیٹو نفسیات کا شعبہ بہت وسیع ہے اس کی بدولت ہم بھرپور فہم و فراست پانے، ذہنی بیماریوں کو جاننے اور واقعات کی گہرائی کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہم فکری صلاحیتوں کی پیمائش کرنے نئی حکمت عملی تیار کرنے کی قابلیت کو جانچنے اور یادداشت کے مسائل سے بہتر انداز میں نمٹنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ میٹا کاگنیشن میں خود کے سوچنے سمجھنے اور خیالات کی آگاہی اور کاگنیٹو نیورو سائنس میں نیورون کے سادہ سے سادہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر فعالیت کو سمجھنے کے لیے مشاہدات و تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *