رویے ( بیہیویرزم) پر ماحول کا اثر ۔۔۔ جاوید نادری

“مجھے میری مرضی کی دنیا میں ایک درجن صحت مند شیرخواروں کی پرورش کرنے دیں، میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ میں ان میں سے کسی ایک کو چن کر کسی بھی قسم کا ماہر بننے کی تربیت دوں گا جو میرا انتخاب ہو، ڈاکٹر، وکیل، فنکار، تاجر، اور ہاں بھکاری یا چور بھی، ان کی صلاحیت، خیالات، رجحانات، قابلیتوں، پیشوں اور آباؤ اجداد کی نسل سے قطع نظر”یہ دعویٰ مشہور ماہر نفسیات جان۔بی۔واٹسن کے ہیں جنہیں بابائے بیہیویئرزم ( behaviorism ) بھی کہا جاتا ہے۔نفسیات کے اس شعبے کی ابتداء 1913 میں واٹسن کے مقالے “نفسیات، جیسے، بیہیویرسٹ(behaviorist) دیکھتا ہے” سے ہوئی اور اگلے چالیس سالوں تک اس مکتب فکر کا علم نفسیات پر اثر و رسوخ قائم رہا، واٹسن کے علاوہ سکنر، کلارک ہل اور ایڈورڈ تورنڈائک نے بھی اس شعبے میں بہ استعداد خدمات انجام دی ہیں۔
بیہیویرزم سیکھنے کا ایک نظریہ ہے، جس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ تمام طرز عمل (رویے، برتاؤ، سلوک) کنڈیشنگ (مشروطیت) کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں اور کنڈیشنگ ماحول کے ساتھ تال میل (تفاعل) قائم کرنے سے ہوتا ہے، بیہیورسٹ کا ماننا ہے کہ ہمارے اعمال ماحولیاتی محرکات سے تشکیل پاتے ہیں، طرز عمل یعنی “رویہ، برتاؤ” ماحول کی دین ہے۔ رویے یا برتاؤ پر پیدائشی یا موروثی عوامل بہت کم اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا یقین ہے کہ صحیح اور درست کنڈیشنگ کے ذریعے کسی کو بھی اس کی جینیاتی پس منظر، شخصی خصوصیات، خیالات، مزاج، اور ادراکی بصیرت سے مستثنیٰ ہو کر کوئی بھی کام انجام دینے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ اس کے منظم بیرونی اور قابل مشاہدہ طرز عمل کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
بیہیویرزم کی دو شاخوں میں پہلی شاخ میتھڈولوجیکل (methodological) بیہیویرزم واٹسن کے نظریات اور نقطہ نظر پر مربوط ہے جبکہ ریڈیکل (radical) بیہیویرزم اسکنر کے نظریات اور نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے۔  یہ وہی اسکنر ہے جنہوں نے اپرنٹ کنڈیشنگ کی اصطلاح کو متعارف کیا ہے۔پہلے طریقہ کار یعنی میتھڈولوجیکل طریقہ کار میں ذہنی حالت اور علمی بصیرت (cognition) کے طریقوں سے مبرّا ہو کر قابل مشاہدہ رویے، برتاؤ کا سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے طریقہ کار میں رویے، برتاؤ کو اس کے ماضی اور حال کے ماحول میں موجود تقویت (منفی، مثبت) کی اثر پذیری کو دیکھ کر سمجھا جاتا ہے۔
بیہیویرزم میں رویوں، برتاؤ کا تحقیق کرتے وقت واضح طور پر مشاہدہ کرنا ان کی درست پیمائش کرنا اور مقداری جمع آوری کرنا آسان ہوتا ہے، گرچہ بیہیویئرزم کا شعبہ زیادہ عرصہ اپنی آب وتاب قائم نہیں رکھ سکا تاہم اس سے جڑی تیکنیکیں آج بھی زیر استعمال ہیں۔ اس کا استعمال درس و تدریس میں کیا جاتا ہے۔ جیسے اسباق کی تیاری میں دلچسپیوں کا خیال رکھنا اور متاثر کن پہلوؤں کو مدنظر رکھنا، طلباء کی سکھاتے وقت حوصلہ افزائی کرنا، بلا وجہ ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرنا، سیکھنے کے ماحول میں فعالیت بڑھانے کے لیے محرک کا استعمال کرنا، باغیانہ رویے کو تبدیل کرنے اور مثبت رد عمل کی حوصلہ افزائی کرنا۔ اس کے علاوہ والدین، اساتذہ، جانوروں کو تربیت دینے میں بھی یہ اعانت فراہم کرتا ہے۔ آٹیزم اور نشوونما میں تاخیر کے شکار بچوں کو پڑھانے اور سکھانے میں اسی سے مدد لی جاتی ہے۔ بیہیویئر اینالسس “behavior  analysis” طرز عمل کا تجزیہ” ایک مروج طریقہ ہے جس کا استعمال ذہنی صحت کے علاج میں رویے اور برتاؤ کے مسائل سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ یہ اداروں میں ملازمین سے مطلوبہ کارکردگی حاصل کرنے، فعالیت بڑھانے اور اکثر تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے اور کلاس میں نظم و ضبط قائم میں بھی کارآمد ہے۔
بیہیویرزم اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود وسیع و جامع نہیں ہے، یہ انسانی طرز عمل “رؤیہ برتاؤ” کو ایک خاص زاویے (صرف قابل مشاہدہ طرز عمل کا مطالعہ) سے دیکھتا ہے جو ہمہ جہتی سے عاری ہے۔یہ آزاد ارادہ، خواہشات، خیالات، احساسات اور اندرونی نفسیاتی واردات کا احاطہ کرنے میں ناکام ہے۔ فرائیڈ نے اس کی ناکامی کی وجہ لاشعوری ذہن کے خیالات، احساسات اور خواہشات کا محاسبہ نہ کرنا ٹہرایا ہے۔ حیاتیاتی نفسیات کی تحقیقات نے بھی انسانی اعمال کے تعین اور ان پر اثر انداز ہونے میں دماغ اور جینیات کے کردار کو ثابت کیا ہے، اس کے علاوہ وقوفی (cognitive )نفسیات کی طرح اسے سوچ، فیصلہ سازی، زبان، مسئلہ حل کرنے کی قدرت رکھنے جیسی خاصیتوں پر غور کرنے سے دور رکھا گیا ہے، بعض دوسرے ناقدین جیسے “کارل راجرز” کا خیال تھا کہ بیہیویرزم بہت کرخت اور محدود ہے اور یہ ذاتی وسیلے کو مبینہ طور پر مدنظر رکھنے سے غافل ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ ماحول کے تعلیم اور تربیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن یہ حرف آخر بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل “اندرونی” تعلیم اور تربیت پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
بیہیویئرزم سیکھنے کے ایسے دیگر طریقوں پر بات نہیں کرتا جو انعام اور سزا کے استعمال کے بغیر ممکن ہے۔ حالانکہ جب نئی معلومات متعارف کروائی جائیں تو ذی عقل “انسان اور جانور” اپنے رویے، برتاؤ کو اس کے مطابق ڈھال سکتے ہیں، اگرچے یہ رویہ پہلے سے تقویت کے ذریعے قائم کیا گیا ہو۔
اب کچھ ذکر “لٹل البرٹ” تجربے کا جو نہ صرف دلچسپی کا باعث ہے بلکہ علمی حوالے سے بھی اہم ہے۔ اپنے اس سب سے مشہور اور متنازعہ تجربے میں واٹسن نے ایک نو مہینے کے چھوٹے بچے کو سفید چوہے سے ڈرنے کے لیے کنڈیشنڈ کیا۔ پہلے پہل سفید چوہے کو بچے کے سامنے لانے پر بچہ ذرا بھی نہیں ڈرا لیکن تجربے کے دوران واٹسن نے بچے کے سامنے چوہا رکھنے کے دوران ایک تیز، زوردار، خوفناک آواز (محرک) کا اِضافہ کیا اور اس عمل کو بار بار دہرایا۔ اس کے بعد جب بھی بچے کے سامنے سفید چوہا لایا جاتا تو وہ فوراً سہم کر ڈر جاتا۔ بچہ سفید چوہے کے علاوہ دوسری سفید چیزوں اور سموری اشیاء” furry objects” سے بھی ڈرنے لگا۔ واٹسن اپنے نظریے کو ثابت کرنے میں کامیاب رہا لیکن اس تجربے کے اخلاقی پہلوؤں پر آج بھی انگلیاں اٹھتیں ہیں۔ خاص طور پر اس لیے کہ بچے کو کبھی بھی ڈی کنڈیشنڈ نہیں کیا گیا، اور یہ بچہ چھ سال کی عمر میں ہائیڈروسیفالس نامی بیماری (جو کھوپڑی کے اندر سیال مادہ کے بننے سے ہوتا ہے) سے مر گیا۔
واٹسن کے آخری ایّام بھی کچھ اچھے نہیں گزرے خود کے بچوں سے خراب تعلقات آہستہ آہستہ مزید خراب ہو گئے۔ ایک فارم میں الگ تھلگ زندگی گزارتے رہے اور موت سے کچھ عرصہ پہلے اپنے بہت سے غیر مطبوعہ تحاریر اور خطوط جلا دئیے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *