کنڈیشننگ Conditioning (مشروطیت) سیکھنے کا ایک سادہ طریقہ ہے جس میں محرک اور رد عمل کے مابین تعلق کی تشکیل اور اس کی شدت (تکرار، تاثر، تقویت ) شامل ہوتی ہے۔
کنڈیشننگ (مشروطیت) کسی ذی عقل “انسان یا جانور” کے ذہنی طور پر سیکھنے، سدھانے یا متاثر کرنے کا عمل ہے تاکہ وہ سوچے بغیر اس فعل کو انجام دے یا اس کی توقع کرے۔
کنڈیشنگ کا عمل پیدائش کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے، ہماری زندگی میں اس کا عمل دخل ہمارے تجربات سے لے کر ہمارے انتخاب، فیصلوں اور ہمارے تمام رویوں میں رہتا ہے۔
اس کے دو اقسام بہت اہم ہیں جس میں پہلا کلاسیکی کنڈیشننگ ہے جسے روسی سائنسدان آئیون پاولو (1849-1936) نے دریافت کیا۔
کلاسیکی کنڈیشننگ ایک لاشعوری یا خود بخود سیکھنے کا عمل ہے یہ غیر مشروط محرک اور غیر جانبدار محرک کے درمیان وابستگی کے ذریعے ایک مشروط رد عمل پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کھانے کی بو سونگھتے ہی کتے کے منہ میں پانی بھر آنا غیر مشروط فطری محرک کے نتیجے میں غیر مشروط فطری اور خود بخود رد عمل “Reflux action” کو متحرک کرتا ہے۔ اس مثال میں بو غیر مشروط محرک ہے۔
غیر مشروط رد عمل، بغیر سیکھے رد عمل ہے جو قدرتی طور پر غیر مشروط محرک کے جواب میں ہوتا ہے۔ منہ میں پانی بھر آنا غیر مشروط رد عمل ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ایک غیر جانبدار محرک کو متعارف کرایا جاتا ہے اور اسے غیر مشروط محرک کے ساتھ جوڑا جاتا ہے یعنی کھانے کی بو کے ساتھ گھنٹی بجائی جاتی ہے۔ گھنٹی کی آواز کا کھانے کی بو سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن یہ عمل بار بار دہرائے جانے سے گھنٹی کی آواز بالآخر مشروط رد عمل کو متحرک کر دے گی یعنی اب صرف گھنٹی کی آواز سننے سے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔
مشروط رد عمل پہلے غیر جانبدار محرک کے لیے سیکھا ہوا رد عمل ہے۔ کنڈشننگ کے مرحلے سے گزرنے کے بعد کنڈیشنڈ محرک بجائے خود کنڈیشنڈ رد عمل کو متحرک کرتا ہے۔
پاولو نے، ماہر فزیولوجی “عضویات” ہونے کے باوجود نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ان کے کام کی وجہ سے اس شعبے میں تحقیقات کیلئے بہت سے نئی راہیں کھلیں۔
اپرنٹ کنڈیشننگ “عاملانہ کنڈیشننگ” کی اصطلاح پی۔ ایف۔ سکنر (1940-1904) نے متعارف کرایا۔ اپرنٹ کنڈیشنگ سیکھنے کا وہ عمل ہے جس میں طرزِ عمل ( برتاؤ، سلوک) کو سزا اور انعام سے مشروط کیا جاتا ہے یعنی معمول کی ارادی حرکات کو تقویت (منفی یا مثبت) سے پختہ کیا جاتا ہے۔ اس میں جس رد عمل کو تقویت نہ دی جائے وہ ختم ہو جائے گا اور جس رد عمل کو تقویت دی جائے وہ پختہ ہو جائے گا۔ مثلاً کمرہ جماعت میں طالب علم کے ہاتھ اٹھا کر سوال کرنے کے عمل کو سراہا جائے یعنی مثبت تقویت دی جائے تو طالب علم یہ عمل بار بار دہرائے گا۔ اس کے برعکس اگر اس عمل پر اسے ڈنڈے مارے جائیں یعنی منفی تقویت دی جائے تو وہ اس عمل کو ترک کردے گا۔ یہاں تقویت سے مراد سزا و انعام ہیں۔
اپرنٹ کنڈیشننگ “عاملانہ مشروطیت” میں رد عمل کو ختم کرنے یا پیدا کرنے کا دارومدار تقویت پر ہوتا ہے۔
کلاسکی کنڈیشننگ کے لیے بیرونی محرکات کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اپرنٹ کنڈیشننگ کے لیے اندرونی تحریک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کلاسیکی کنڈیشننگ کی بنیاد وابستگی پر جبکہ اپرنٹ کنڈیشننگ کی بنیاد تقویت پر ہے۔
روز مرہ کی زندگی میں سیکھنے کے لیے ہم زیادہ تر کنڈیشننگ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ سادہ بھی ہے اور آسان بھی۔ اس کا بیشتر حصہ تشریط (طرز عمل میں تبدیلی) پر منحصر ہے۔ مثلاً بادلوں کی گرج چمک سے خوفزدہ ہونا، چھپکلی کو دیکھ کر کراہت محسوس کرنا، سانپ کو دیکھتے ہی بھاگ جانا، لال بیگ کو دیکھتے ہی چپل اٹھا کے مار دینا، چوسنی دیکھتے ہی روتے ہوئے بچے کا چپ ہو جانا، استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کے خوف سے ہوم ورک مکمل کرنا، ماں کی سناوٹ سے پہلے نہانا دھونا اور تیار ہونا، دوزخ کے خوف یا جنت کی بشارت کے لیے نیک اعمال انجام دینا، بونس کی خاطر دیر تک کام پر رکنا اور ان کے علاوہ کاروبار اور مارکیٹنگ میں صارفین کو مصنوعات اور برانڈز کی جانب راغب کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پرجوش اور خوشگوار موسیقی، اشتہار دیکھنے یا سننے والے کو خوشی اور فرحت کے احساس سے وابستہ کرتا ہے اور یوں لوگ کمپنی یا مصنوعات کو مثبت جذبات سے جوڑ دیتے ہیں۔
لائیو سٹاک کو شکاری جانوروں سے بچانے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا گیا ہے۔
ایک مطالعے میں ماہرین نے بھیڑوں کی لاشوں کو ایک ایسا انجیکشن لگایا جو بھیڑوں کا شکار کرنے والے کایوٹ(بھیڑیا نما کُتا) (coyote) کو بیمار کرتا تھا۔ اس کا مقصد کایوٹ کو بھیڑوں کے شکار سے دور رکھنا تھا۔ اس تجربے کے نتیجے میں نہ صرف بھیڑوں کا شکار رکا بلکہ کچھ کایوٹ میں بھیڑوں سے اتنی شدید نفرت پیدا ہوئی کہ وہ بھیڑوں کی بو سونگھ کر یا ان کے نظر آنے پر ہی بھاگ جاتے تھے۔
کنڈیشننگ کو علاج معالجے کی غرض سے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے فوبیا اور اضطراب کے مسائل سے نمٹنے کے لیے، لت سے چھٹکارا پانے کے لیے، اسکول اور کلاس میں مثبت ماحول قائم رکھنے کے لیے اور بہت سے ایسے دوسرے کاموں کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔
کنڈیشننگ وقت کے ساتھ غائب تو ہو جاتا ہے مگر کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ کنڈیشنگ کے اثرات زندگی بھر قائم رہتے ہیں یہ ہمارے سوچنے کی صلاحیت ہمارے اعصاب اور ہماری طبیعت پر ان مٹ چاپ چھوڑ جاتا ہے۔
فی زمانہ کنڈیشننگ پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ تنقید کرنے والوں نے اسے انسانی انفرادیت اور آزاد ارادے کو خاطر میں نہ لانے والا، شعوری خود آگاہی، فطری رجحانات، سیکھنے کی حدود، اور وراثتی عوامل کو نظر انداز کرنے والا ایک کمزور طرز فکر مانا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پیچیدہ سوچ، اور مسائل حل کرنے کی ہماری صلاحیت کی وضاحت نہیں کر سکتا، اسے پیچیدہ تصورات سکھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ سزا اور انعام کے توسط سے ہمیشہ مزاج کی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
باوجود ایں تمام، کنڈیشننگ کا علم اب بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ یہ جدید نفسیات سے مطابقت رکھتا ہے اور روز مرہ زندگی میں مختلف شعبوں میں اس کی کامیاب آزمائش جاری وساری ہے۔
Latest posts by جاوید نادری (see all)
- تاریک مادہ اور تاریک توانائی ۔۔۔ جاوید نادری - 09/05/2024
- خدا کا ذرّہ، خدائی ذرّہ یا گاڈ پارٹیکل ۔۔۔ جاوید نادری - 15/04/2024
- نیوٹرینوز یا بھوت ذرات ۔۔۔ جاوید نادری - 05/04/2024