تاریک مادہ اور تاریک توانائی ۔۔۔ جاوید نادری

کسی بھی معلوم لمحہ میں، تاریک مادہ (Dark matter) کے کھربوں نامعلوم ذرّات ہمارے آس پاس بغیر کوئی سراغ، کسی سرگوشی یا آہٹ کے بہتے رہتے ہیں۔ یہ ایک غیر مرئی (نظر نہ آنےوالا) مادہ ہے جو کائنات میں موجود تمام مادے کا تقریباً 26 فیصد ہے۔ عام مادے کے برعکس، تاریک مادہ برقی مقناطیسی قوت کے ساتھ تعامل (interactions) نہیں کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ روشنی کو جذب، منعکس یا خارج نہیں کرتا نہ ہی اس کی اپنی کوئی روشنی ہوتی ہے اس وجہ سے اسے تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ تاریک مادے کے وجود کا قیاس (اندازہ) صرف اس کشش ثقل کے اثر سے لگایا جاتا ہے جو کہ نظر آنے والے مادے پر پڑتا ہے۔ عام مادہ جہاں بھی رہتا ہے، تاریک مادّہ اس کے پہلو میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریک مادّہ نظر آنے والے مادّے سے تقریباً چھ سے ایک کے تناسب سے زیادہ ہے۔
ہماری کائنات میں کہکشائیں کچھ اس رفتار سے گھوم رہی ہیں کہ ان کے قابل مشاہدہ مادے سے پیدا ہونے والی کشش ثقل انہیں ایک ساتھ جوڑے نہیں رکھ سکتی۔ انہیں بہت پہلے خود کو بکھیر دینا چاہیے تھا۔ کلسٹرز میں موجود کہکشاؤں کا بھی یہی حال ہے۔ یہ صورت حال سائنسدانوں کو یہ یقین کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کوئی ایسی چیز کام کر رہی ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ان کا خیال ہے کہ جس چیز کا ہمیں ابھی تک براہ راست پتہ لگانا ہے اور جو ان کہکشاؤں کو اضافی کمیت (mass) دے رہی ہے، جس سے وہ اضافی کشش ثقل پیدا کر رہی ہے جس کی انہیں برقرار رہنے کے لئے ضرورت ہے، وہ عجیب اور نامعلوم مادہ، تاریک مادہ “dark matter” ہی ہے۔
طبیعیات دانوں کا یہ ماننا ہے کہ تاریک مادے کے ذرات اتنے ہلکے ہوں گے کہ اگر اسے LHC ( یورپ میں ایک تجربہ گاہ) میں پیدا کیا جائے تو وہ کسی کا دھیان کھینچے بغیر ڈیٹیکٹرز کی گرفت سے باآسانی فرار ہو جائیں، تاہم طبیعیات دان تجربے کے بعد توانائی اور رفتار کی “missing” مقدار سے اس کے وجود کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو انہیں ہماری کائنات کی ساخت اور خاص طور پر کہکشاؤں کے ایک ساتھ جوڑے رہنے کے بارے میں بہتر افہام و تفہیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔
ماہرین فلکیات بشمول ایڈون ہبل، نے دریافت کیا کہ کہکشائیں بظاہر ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں اور وہ جتنی دور دکھائی دیتی ہیں اتنی ہی تیزی سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔ اپنے اعداد و شمار اور آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی مدد سے، محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے اور ساتھ ساتھ کہکشاؤں کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
اس کے کافی عرصہ بعد، محققین کے دو الگ گروپ سامنے آئے اور اعلان کیا کہ انہوں نے کائناتی پھیلاؤ کو اعلیٰ درجے کی درستگی تک صحیح ناپا ہے اور یہ پتہ چلایا ہے کہ یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس سرعت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نامعلوم “قوت” کشش ثقل کا مقابلہ کر رہی ہے اور کائنات کو زیادہ تیزی سے پھیلا رہی ہے۔
ہم، اب اس پراسرار قوت کو تاریک توانائی “dark energy” کے نام سے جانتے ہیں، تقریباً ایک جیسے ناموں کے باوجود، تاریک توانائی اور تاریک مادّہ ایک طرح کے نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ یہ دونوں نظر نہیں آتے یعنی پوشیدہ ہیں۔ تاریک مادہ کہکشاؤں کو ایک ساتھ باہم کھینچتا ہے جب کہ تاریک توانائی انہیں پرے دھکیل کر الگ کر رہی ہے۔ کائنات کا تقریباً 69 فیصدی حصہ اسی تاریک توانائی سے بنا ہے، باقی 26 فیصدی حصہ تاریک مادّہ سے اور صرف 5 فیصدی حصہ ستاروں، سیاروں اور ہم سمیت معلوم ایٹمی مادے سے بنا ہے۔
تاریک مادے کے اس بہتات کے باوجود، سائنس دان ان ذرّات کی شناخت نہیں کر سکے جو تاریک مادے کو بناتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ تاریک مادہ موجود ہے اور یہ بھی کہ یہ کہاں ہے؟ لیکن اسے براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ 1990 کی دہائی سے، سائنس دان بڑے بڑے تجربات کر رہے ہیں جو تاریک مادے کے ذرّات کو پکڑ میں لانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ لیکن ہر بار انہوں نے خود کو خالی ہاتھ ہی پایا ہے۔
ماہرین و محققین یہ جانتے ہیں کہ تاریک مادے کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن وہ پُرعزم ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلسل تلاش، جس میں انہیں سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد بھی حاصل ہے، کی بدولت وہ ایک دن تاریک مادے کو اس کی تمام پراسراریت سمت کھوجنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *