شناخت کا بحران۔۔۔ جاوید نادری

 

 

 

 انسان اپنی زندگی میں (پیدائش سے وفات تک) شناخت کے مختلف مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ جنس کی پہلی شناخت سے لے کر دیے گئے ناموں، برادری، مذہب، مسلک، نسل، قوم اور علاقائی شناخت تک سب اسے مرضی کے بنا تفویض ہو چکے ہوتے ہیں۔

جوانی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے جس ایک الجھاؤ کا شعوری ادراک عموماً سب سے زیادہ ستاتا ہے وہ شناخت ہی ہوتی ہے۔

شناخت کیا ہے؟ میری شناخت کیا ہے؟ میری ذاتی شناخت کیا ہے؟ میری قومی شناخت کیا ہے؟ میری سماجی شناخت کیا ہے یا کیا ہونی چاہیے؟

ایسے بہت سارے سوالات ذہن کو الجھائے رکھتے ہیں۔

میرے خیال میں شناخت، شخصیت کی وضاحت ہوتی ہے، یعنی نفسیاتی، جسمانی اور انفرادی واجتماعی خصوصیات کا وہ مجموعہ جو دوسروں سے مختلف (الگ) ہو، یہ منفرد خصوصیات، خد و خال، وابستگی اور سماجی رویوں اور ذمہ داریوں کا مرکب ہوتی ہے۔ یہ آپ کی جینیات، ماحول، منظم سوچ، طرز عمل اور وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والے معاشرتی تغیرات کے اثرات کی عکاس ہے۔

شناخت ہجوم کے جمگھٹے میں عمومی واقفیت، مانوسیت اور پہچان کی علامت ہے۔ اگر یہ ذاتی شناخت ہے تو یہ منفرد خد و خال، خصلت و خو، بود وباش کے ربط باہم کا فرحت بخش احساس ہے۔

شناخت وجود کی اکائی سے جڑے رہتے ہوئے بیرونی دنیا سے مربوط ہونے کا ذریعہ ہے، یہ باطنی بقا کی جمالیاتی تشفی ہے یہ مختلف زمان و مکان میں مختلف کرداروں اور ذمہ داریوں کے بیچ منفرد و ممتاز ہونے کی تسلی ہے۔ یہ اپنی وسعتوں کی پراسراریت سے آشنائی ہے، یہ حسن و جمال کو عشق میں پرونے کی آگاہی ہے، یہ دوسروں کی آنکھوں سے خود کو دیکھنے اور سراہنے کا انعام ہے۔ اور اگر یہ اجتماعی/سماجی شناخت ہے تو یہ اسلاف کی کامرانیوں پر غرور کا جواز ہے، یہ تعلق کا احساس ہے، یہ تحفظ و استحکام کی علامت ہے یہ قدر، اہمیت اور حیثیت کی توثیق ہے، یہ عہد سازی کا قرینہ ہے، یہ اعتماد، امید، کھلے پن اور بہتر مستقبل کا مظہر ہے۔ قومی (نسلی) شناخت سے لگاؤ جوانی میں اپنی شناخت کی تعمیر و ترقی کے عمل کے دوران تعلق کا احساس دلاتا ہے۔ مسلسل آزمائشوں کی اس گھڑی میں یہ ٹھہراؤ کا ایک حسین احساس ہوتا ہے۔ اس سے جڑے رہنے سے اکثر اوقات مثبت نفسیاتی نتائج برآمد ہوتے ہیں جیسا کہ خود اعتمادی اور مقصدیت۔ انسان عمر کے بیشتر حصے میں شخصیت سازی کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے یوں اس کی شخصیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

اس کی پہلی شناخت اس کی جنس ہوتی ہے جنس کا احساس آنے والے دنوں میں اس کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کا تعین کرتا ہے۔

شناخت کی تشکیل اور ارتقاء کے مراحل پر مختلف اقسام کے اندرونی اور بیرونی محرکات جیسا کہ سماج، خاندان، عزیز و اقارب، نسل، قومیت، فرقہ، ثقافت، مقام، محل وقوع، مواقع، میڈیا، عوامی دلچسپی، ظاہری شکل و شباہت، خود نمائی، خود ستائی اور تجربات (حاصل شدہ) مسلسل اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ 

انسان کو خود (اپنا آپ) کی پہچان اگرچہ بچپن میں ہی ہو جاتی ہے لیکن آغاز جوانی میں اسے منفرد اور مخصوص بنانے کی کوشش شروع ہوتی ہے۔ جوانی کے جوش اور ولولے سے بھرپور کچھ بننے, بنانے یا بدلنے کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے اور یہی سے شناخت کی تعمیر میں فعالیت کا کام شروع ہوتا ہے۔

یہاں نئے مواقع کے ساتھ متوقع خطرات کے باعث تحفظ اور استحکام کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے جو بیرونی توثیق اور ستائش کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اس کے برعکس شناخت میں الجھن تب پیدا ہوتی ہے جب فرد ایک مستند محفوظ و مستحکم شناخت حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور زندگی میں اس کے افعال و کردار کے بارے میں بے یقینی بڑھ جاتی ہے۔ وہ اپنی صلاحیت، قابلیت، استعداد اور عزائم کے احساس سے خود کو گریزاں پاتا ہے، وہ خود کو مسترد و منقطع شدہ اور کھویا ہوا پاتا ہے۔ وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ کسی اور کی زندگی گزار رہا ہے یا کسی اور کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہاں ایک ایسا بحران جنم لیتا ہے جسے نفسیات میں “شناخت کا بحران” کہتے ہیں۔

شناخت ذاتی اور سماجی دونوں طرح کی ہوتی ہے۔ شناخت کا ذاتی بحران عموماً اجتماعی سماجی شناخت کے بحران کو ابھارنے کا سبب بنتا ہے۔

ذاتی شناخت کے بحران میں پھنسے شخص کو قومی (نسلی) شناخت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک ایسے ستون کی ضرورت جس پر وہ اپنا آپ “سیلف بینگ” (self being ) کی عمارت کو ایستادہ رکھ سکے۔ وہ خود کی تسلی کے لیے مشترکہ قومی شناخت سے جڑے رہنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ قومی شناخت جب زیادہ قابل ذکر (شاندار) نہ ہو تب یہ بحران مزید پیچدہ ہو جاتا ہے اور وہ ماضی میں اپنے اجداد کے کارناموں سے جڑ کر اپنے حال کی تشفی کرنے لگتا ہے اور یوں بیک وقت دو گردابوں میں گر کر رہ جاتا ہے۔حالانکہ نسلی وراثت میں ملنے والی قومی شناخت، حیاتیاتی و نفسیاتی صفات، ثقافتی، سیاسی اختلافات پر مشتمل ایک طویل تاریخ (کثیر النسلی معاشروں میں) تقسیم، تصادم اور تعصب کو پروان چڑھاتا ہے اور باہم ٹکراؤ کے امکانات کی ہمہ وقت موجودگی کا سبب بنتا ہے، یوں شناخت کا بحران علاقائی عدم تحفظ اور عدم استحکام (سیاسی و معاشی) کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یعنی طاقت، وسائل تک رسائی اور علاقے کے اختیار کا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم آہنگی اور باہمی اعتماد و احترام کا فقدان پورے معاشرے میں سرائیت کر جاتا ہے، ترقی اور آسودگی خواب بن کر رہ جاتی ہے، پسماندگی تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے، تنگ نظری اور کوتاہ بینی طبیعت کا خاصہ بن جاتی ہے، تعمیر کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے، خوش باوری کے عالم میں موجودہ حالت کو ہی اصلی شناخت ٹھہرایا جاتا ہے اور اسی غیر حقیقی شناخت کو دوسروں پر فوقیت دینے کی سعی میں کسی ضعیف نظریے یا عقیدے سے منسلک ہو کر دفاعی پوزیشن اختیار کر بیٹھتا ہے۔ نتیجتاً فرد پہلے سے زیادہ غیر محفوظ، نحیف و کمزور پڑ جاتا ہے۔

شناخت کا بحران ایک غیر یقینی صورتحال اور الجھن کا دور ہے جس میں کسی شخص کی شناخت کے احساس کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ 

شناخت کے بحران سے نبرد آزما ہونے کا پہلا قدم اس سے وابستہ احساسات کو درک کرنا اور تسلیم کرنا ہے۔ اپنی بنیادی ذہنیت، اقدار، عقائد اور ترجیحات کے بارے میں سوچیں، معلوم کریں کہ آپ کے لیے کیا اہم ہے، آپ زندگی میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں آپ کی خوشی کس میں ہے؟ اپنی زندگی کے معنی تلاش کریں اپنی استطاعت، مہارت اور صلاحیتوں کو دریافت کریں، جانیے کہ آپ کس کام میں بہترین ہیں اور آپ کو کیا کرنا اچھا لگتا ہے۔ ماضی کے تجربات پر غور کریں’ دیکھیں کہ آپ کی شخصی تشکیل کیسے ہوئی ہے آپ نے اپنے تجربات سے کیا سبق حاصل کیا ہے اور آپ کی شخصیت سازی میں آپ کا ماضی کتنا ذمہ دار رہا ہے اور مستقبل میں کتنی رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ خود شناسائی، خودیافتن اور خود نمائی شناخت کو واضح کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، ماحول کی تبدیلی نئے تجربات کی تلاش اور نئی چیزوں کو آزمانے سے آپ اپنی شخصیت کے نئے پہلیوں کو دریافت کرنے اور مقصد و سمت کا احساس حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *