کورونا وائرس اور میری موت ۔۔۔ ناظر یوسفی

٭
پہلی قسط
کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ کرونا وائرس کے باعث میری موت واقع ہوگئی ہے۔ بہت سارے دوست، احباب اور رشتے دار جب میری لاش دفنا کر واپس جانے لگتے ہیں تو میری بھی خواہش ہوتی ہے کہ تنگ و تاریک قبر میں پڑا رہنے کی بجاے ان کے ساتھ واپس اپنے بیوی بچوں کے پاس گھر جاؤں۔ لیکن میں تو مر گیا ہوں، اٹھ نہیں سکتا! اب میں گھپ اندھیرے اپنی قبر میں سخت پتھریلی زمیں پر پڑا اس انتظار میں سوچ رہا تھا کہ اب تو میری خیر نہیں! اور ملاؤں کے بقول  قبر کی زمین مجھے تین مرتبہ دبا کر اپنا بدلہ لے گی کیونکہ میں نے52 سال تک اسے اپنے پاؤں تلے اسے روندا جو تھا۔ اس وحشت ناک گورِ تنہائی میں گھنٹوں بے سدھ پڑا میں سوچتا اور انتظار کرتا رہا کہ اب زمین غصے میں آکر مجھے دبوچے گی……اب کے دبوچے گی۔ لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہوا!
قبر میں بغیر ہلے جلے ایک ہی کروٹ میں کئی گھنٹے پڑا رہ کر گذارنا میرے لیے حد درجہ ناقابل برداشت تجربہ تھا اور چونکہ میں مرا ہوا بھی تھا اسی لیے خود کو ایک انچ ہلانا میرے لیے محال تھا۔ ہاں یہ بات میرے لئے باعث تعجب ضرور تھی کہ میں ایک زندہ انسان کی طرح باقاعدہ ہوش و حواس میں تھا۔ میں سوچ سکتا تھا، سن سکتا تھا، حتی کہ اپنے جسم کے نیچے تکلیف دہ پتھریلی زمین کو محسوس بھی کرسکتا تھا۔ میں اس گورکن کو اور مجھے دفنانے والے ان بے انصاف دوستوں اور رشتہ داروں کو بھلا کیسے بھول سکتا تھا جنہوں نے آناً فاناً مجھے مٹی تلے دفنا کر اپنی اپنی مصروفیات کی اور دوبارہ لوٹ بھی چکے تھے۔ مگر ظالم لوگ میری پسلیوں کے عین نیچے پڑے ایک اچھے خاصے بڑے سے پتھر کو ہٹانا بھول گئے تھے جو میری پسلیوں میں شدت کے ساتھ چھب رہا تھا اور جس کے ناقابل برداشت درد سے میں سخت تکلیف میں مبتلا تھا۔
اس حال میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ گھپ اندھیارے میں مجھے کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اس وقت سورج چڑھا ہوا ہے یا غروب ہو چکا ہے؟ لیکن بچپن سے ملاؤں سے سنی یہ بات مسلسل ذہن میں گھوم رہی تھی شام ہوتے ہی قبر روشن اور نہایت کشادہ ہو گی۔ پھر حضرت امام علی اور دو فرشتے ’عنکرمنکر‘ اپنے آتشی گرزوں کے ساتھ آئیں گے اور مجھ سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کریں گے۔ مجھے اتنا اندازہ ضرور تھا کہ ابھی تک شام نہیں ہوئی ہوگی۔ مگر سوال و جواب کا خوف میری جان کو کھائے جا رہا تھا۔ کیونکہ جب تک میں زندہ تھا کسی آخند کی تعلیمات حاصل کرنا تو درکنار، ہوش سنبھالتے ہی خدا کے ان نام نہاد اور خودساختہ نمائندوں کی روئے زمین پر سخت مخالفت شروع کر دی تھی۔ ان کی تعلیمات کو میں نے صرف اور صرف خوف کا شاخسانہ قرار دے کر ان کے پیٹ کے معاملے اور مزید بے جا معتبری جتلانے سے زیادہ نہیں سمجھا تھا۔ اس عالم تنہائی میں یہ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹنے لگا تھا لہٰذا خود کو سخت لعنت ملامت کرتا رہا۔ اب تو موقع میرے ہاتھوں سے نکل بھی چکا تھا اور سوائے سخت ترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے میرے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
بالآخر طویل انتظار ختم ہوا اور اچانک میری قبر کا فرش جھٹکے سے سرک گیا ۔ میری قبر ایک بڑے خوبصورت اور خوشبودار کمرے میں تبدیل ہو گئی۔ میں ابھی تک حالت مرگ میں تھا اس لیے ہل جل نہیں سکتا تھا۔ اس دوران ایک بہت ہی خوش شکل فرشتہ میری کشادہ قبر میں نمودار ہوا اور آتے ہی اس نے میرے ماتھے پر نہایت آرام کے ساتھ اپنے نرم ہاتھوں کے لمس سے مجھے دوبارہ زندہ کیا۔ انہوں نے مجھ سے اٹھ بیٹھنے کا کہا اور میں ہکا بکا اور بہت ہی سہما ہوا پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ انہوں نے مجھ سے بڑے نرم لہجہ اورمودبانہ انداز میں کہا، کہ اٹھو ہم نے کہیں جانا ہے۔ سچ پوچھیں تو ایک طرف مجھ پر خوف طاری تھا اور دوسری طرف میرے الجھے ہوئے ذہن نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کہ یہ ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ؟…… یہ فرشتہ کون ہے؟ عنکرمنکر اپنے آتشی گرزوں کے ساتھ کیوں نہیں آئے؟ اور سب سے اہم بات میرے لیے یہ تھی کہ وہاں حضرت مولا علی علیہ السلام کیوں نہیں آئے؟ میں سوچوں کے سمندر میں غرق تھا، کہ ہو نہ ہو! شاید دنیا میں مجھ سے سرزد ہونے والے گناہان اتنے زیادہ ہوں گے کہ خداوند تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السلام اور عنکر منکر کو زحمت ہی نہیں دی ہو گی اور مجھے جس فرشتے کے حوالے کیا جا رہا ہے وہ مجھے سیدھا جہنم لے کر جانے والا ہوگا۔ شدید تذبذب کا شکار میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ خدا نے ان ہیبت ناک فرشتوں کو آتشی گرزوں اور نیزوں کے ساتھ بھیجنے کی بجائے اس نرم دل و نرم خو فرشتے کو بھلا میرے لیے کیوں چنا ہے؟ سچ پوچھیں تو شاید ایک سیکنڈ میں لاکھوں سوالات میرے ذہن کے خلیوں میں بجلی کی طرح دوڑ رہے تھے۔
ابھی میرا دماغ اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ اس شفیق فرشتے نے بہت ہی پیار اور آرام سے جھک کر اپنے ہاتھوں سے مجھے سہارا دیا تاکہ میں اٹھ کر بیٹھ سکوں۔  تبھی میرے کانوں میں اس کی شریں آواز آئی:
”تمہیں حیرت میں پڑنے کی اور ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں! چلئے اٹھ جایئے، خدا کے دربار میں جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے، جہاں آپ کے دنیاوی اعمال کا حساب کتاب ہونا ہے۔“
فرشتے کے نرم و ملائم لہجے کے باوجود، خداوند کا دربار اور حساب کتاب والے جملے  میرے اوسان خطا کردینے کے لئے کافی تھے۔ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ فرشتے کے نرم رویے پر تھوڑی بہت ہمت باندھ لوں۔ میرے ذہن میں اس نیک فرشتے کے لیے سوالات کی بھرمار تھی، لیکن اس کے جملے ”خدا کے دربار میں پیش ہونا اور اعمال کے حساب کتاب“ نے تو جیسے میری تمام ہمت توڑ کر رکھ دی اور ساتھ میں تمام سوالات بھی ذہن سے محو کر دیئے۔ میری زبان اور میرا حلق کسی بنجر زمین کی طرح خشک ہو چکے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے جسم سے میری روح نکال کر پھر سے مجھے ایک ساکت و صامت زندہ لاش بنا دیا گیا ہو۔ لیکن ایک بات میں بخوبی محسوس کر رہا تھا کہ میری سوچنے کی قوت میرا پورا ساتھ دے رہی تھی اور میں اپنے اردگرد ہونے والے تمام حالات و واقعات کا صحیح ادراک اور تجزیہ کرنے کے قابل تھا۔
فرشتے نے جب میری یہ حالت دیکھی تو میرے بدن پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
”خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، جو بھی مر کر یہاں آتا ہے سب کی حالت تمہاری جیسی ہوتی ہے۔ کیونکہ مذہبی پیشوا، پنڈت، پادری اور ملا  انسانوں کو دنیا میں اپنے مفادات کی خاطر ہزاروں سال سے فریب دیتے چلے آ رہے ہیں اور ان بیچاروں کو فقط جہنم کی آگ سے ڈرایا جاتا ہے۔ مگر انہیں شفیق خداوند کی محبت سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام لوگ مرنے کے بعد ایسی ہی حالت سے دوچار ہوتے ہیں جس طرح اب تمہاری ہے۔ اب میں نے تمہارے بدن پر اپنا ہاتھ پھیر دیا ہے، اس لیے اب آپ میں اٹھنے اور چلنے پھرنے کی طاقت دوبارہ آجائے گی۔
یہ سنتے ہی میرے بدن میں  تھوڑی بہت حرکت آنے لگی اورمیں  فرشتے کی مدد سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر نے  فرشتے کی مدد کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی، لیکن میں نے دیکھا کہ میرے دونوں پیروں کے انگوٹھے کسی سفید چیتھڑے سے آپس میں بندھے ہوئے تھے۔ فرشتے نے اسے کھول کر دور پھینکتے ہوئے کہا :
”روئے زمین پر آپ کے ملا حضرات نے بھی آپ لوگوں کو عجیب و غریب توہمات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اب بھلا ان دونوں انگوٹھوں کو باندھنے کی کیا ضرورت ہے؟ الٹا ہمارے کام میں اضافہ کرتے ہیں ورنہ اس کا کوئی تُک نہیں بنتا۔ مذہبی پیشواؤں نے روئے زمین پر اپنی روزی روٹی کی خاطر جس قدر سادہ لوح انسانوں کی دنیا کو دوزخ بنا رکھا ہے، اسی قدریہاں ہم فرشتوں کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔ اب دیکھو ناں! روزانہ لاکھوں لوگ مختلف وجوہات و واقعات کی بنا پر مر کر یہاں آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے خوف کو دور کرنے میں ہمارا کتنا وقت ضائع ہوتا ہے؟ یہ بدبخت مذہبی پیشوا انسانوں کو دنیا میں خدا سے اتنا ڈراتے ہیں کہ ہمیں انہیں دوبارہ ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے، ان کے اذہان کو اس ان دیکھے خوف اور ڈر سے پاک کرنے کے لیے اور انہیں دلاسے اور تسلیاں دینے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔“
یہ کہہ کر فرشتے نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:
”میری باتیں سمجھ میں آرہی ہیں ناں؟“ لیکن میرا پورا دھیان تو خدا کی عدالت میں حاضری کی طرف  تھا اور حالت میری ایسی تھی، جیسے سزائے موت پانے والے کسی مجرم کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جایا جا رہا ہو۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا جب نیک صفت فرشتے نے میرے بازوؤں کو سہارا دیتے ہوئے مجھے اس کشادہ کمرے کے دروازے سے باہر نکال لیا۔ باہر ایک عجیب منظر تھا۔ حد نگاہ تک ایک وسیع وعریض میدان تھا جس میں لاکھوں انسان نظر آرہے تھے جو میری طرح کفن میں لپٹے ہوئے تھے جبکہ لاکھوں فرشتے انہیں سہارا دیئے ایک سمت کی جانب خاموش سیلاب کی طرح رواں دواں تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر پہلے تو میں بہت گھبرایا، مگر مجھے تسکین و تشفی اس وقت ملی جب میں نے اپنے قریب کے چند کفن پوش انسانوں کو دیکھا جن کی حالتیں مجھ سے بھی بدتر نظر آرہی تھیں۔
عجیب نظارہ تھا، خدا کی خدائی پر مجھے اس وقت بہت تعجب ہو رہا تھا۔ لاکھوں انسان سفید کفنوں میں ملبوس اپنے احتسابات عمل کے لیے کسی عظیم محتسب کے دربار کی طرف خراماں خراماں گامزن تھے۔ لیکن گاہ بہ گاہ فرشتوں کی آوازیں سماں میں موجود خاموشی کو توڑتی ہوئی کانوں سے ٹکراتی تھیں، جو مجھ جیسوں کو سنبھل سنبھل کر چلنے کی ہدایات دے رہے تھے۔
ابھی ہم کچھ دور ہی چلے تھے جب میری نظر کفن پوش مردوں کی ایک ایسی بڑی ٹولی پر پڑی جن کے چہروں پر ایک انجانا خوف طاری تھا۔ مجھے ان کے چہرے اور حلیے کچھ شناسا سے لگے۔ ان میں سے ایک چہرہ تومجھے کافی جانا پہچانا سا لگا۔ لیکن خوف اور دہشت نے اس کی حالت اتنی پتلی کر دی تھی کہ باوجود دقیق غور و خوص کے اسے مکمل پہچاننا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ میں اس کے خوفزدہ چہرے پر بکھری داڑھی اور اس کے حلیے کو غور سے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش میں تھا تبھی مجھے حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا۔  میں اسے پہچان چکا تھا۔ اس کا حلیہ دیکھ کر میرا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔  اس کی حالت بہت قابل رحم تھی اور وہ ہم جیسے گنہگاروں کی نسبت خدا کی عدالت سے کچھ زیادہ ہی ڈرا اور سہما ہوا نظر آرہا تھا۔
جاری ہے!
ناظر یوسفی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *