معاشرے میں اجنبیت کا بڑھتا احساس ۔۔۔ جاوید نادری

جب لوگ اپنے معاشرے کی موجودہ حالت، اصول، قواعد، ثقافت و اقدار سے مربوط ہونے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو خود کو اجنبیت اور بیگانگی کے حصار میں محصور کر لیتے ہیں۔ جو معاشرہ مسلسل خوف یا ناگہانی فتنوں کے زیر اثر پنپ رہا ہو وہاں معمولات زندگی کا قائم رہنا ممکن نہیں رہتا۔ وہاں سارے معاشرتی قواعد، اصول، ثقافت و اقدار دھندلے اور غیر واضح ہو جاتے ہیں نتیجے میں ایک بے ترتیبی، اضطراب و بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، یہ بے قاعدگی کی ایک ایسی حالت ہے جہاں معاشرہ اپنے افراد کی توقعات یا طرز عمل کو موثر طریقے سے منظم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب خواہشات کو تکمیل کے امکان سے آگے بڑھنے دیا جاتا ہے اور سماجی معیارات کو عمومیت کی دسترس سے دور رکھا جاتا ہے۔
حوصلہ افزائی یعنی قدردانی کی عدم دستیابی، بے یقینی کی فراوانی مثبت بیرونی محرکات کی غیر موجودگی، خود بیگانگی، اور احساساتی بے رخی، نفسیاتی کج روی بہ الفاظ دیگر نفسیاتی عدم توازن کو جنم دیتی ہے یہ عدم توازن، بیزاری، افسردگی، دکھاوا، کھوکھلا پن، بے چینی، ابہام، تھکاوٹ، تذبذب، لاپروائی اور خالی پن کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ کام سے اکتاہٹ اور مسلسل خوف کے سائے میں رہنے سے تمام قوت ارادی زائل ہو جاتی ہے۔ حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے، ہمت ہار جاتی ہے، مقصد، ہدف اور سمت کا تعین وبالِ جان بن جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ حالت اضطراب میں رہتا ہے، زندگی جہنم بن جاتی ہے، شخصیت فوت ہو جاتی ہے۔ متعین ہدف اور منزل کے بغیر زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ انجانے مستقبل کا خوف اور منتشر (احمقانہ) سوچ میں مبتلا فیصلے کی قوت سے عاری شخص اپنے ہی وجود کے لامحدود خلا میں معلق ہوکر رہ جاتا ہے۔ کوئی نتیجہ خیز کام کی انجام دہی کے بغیر مثبت اہداف و غایت سے دور انسان، ذہنی و اعصابی ناتوانی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے ذہنی و اعصابی طور پر ناتواں فرد عزائم سے عاری، یقین کی منزل سے دور، خود سے بیزار، خالی پن کی کیفیت میں ڈوبا رہتا ہے اور کچھ الگ کرنے کی خواہش (طلب) میں (اپنے وجود کے اثبات کی خاطر) تمام سماجی روایات سے منحرف ہو جاتا ہے۔ اپنے اعمال کی جوابدہی ضروری نہیں سمجھتا ہے وہ جدت اور تبدیلی کو (جارحانہ) رد کرتا ہے۔ جھوٹ اور دوغلے پن کو ذہنی تسکین کا سامان سمجھتا ہے اور اپنی مخصوص حالت (ذہنی ) کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے اور یوں ایک فرد اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی عزیز واقارب میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسی بیگانگی اور اجنبیت کے عالم میں وہ اپنی تلاش میں نکلتا پڑتا ہے۔ یہاں وہاں بھٹکتے بھٹکتے وہ سکون کی سرحدوں آگے نکل جاتا ہے اور الجھاؤ، تناؤ، بوریت اور وحشت کے دام میں پھنس جاتا ہے۔
جب تک فرد اپنے لیے سمت کا تعین نہیں کرے گا (وہ اپنی ذات کی بے معنویت میں الجھتا رہے گا) معاشرہ اسی طرح بے سمت رہے گا وہ مسلسل الجھاؤ اور تناؤ کے کشمکش میں رہے گا اور معاشرے کی بڑھوتری اور ترقی کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے گا۔
یہاں کسی بھی آئیڈیل معاشرے کی تشکیل سے متعلق بات نہیں ہو رہی بلکہ جو قدرت کا قانون ہے وہ بیان کیا جا رہا ہے، ہمارا موجودہ ذہنی توازن ہماری موجودہ صورتحال کے مطابق ہی پروان چڑھا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں equilibrium قائم ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو ایک بامعنی (درست) سمت کی جانب گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ہمیں بہت ہی بنیادی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ پرانے کھنڈرات پر نئی عمارت کی بنیاد رکھنا عجلت مزاجی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمیں اپنے حال (present ) کو تبدیلی اور جدت سے مزین کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی موجودہ معاشرتی حالت (رہن سہن) کا اثر نو جائزہ لینا پڑے گا۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کون سی ایسی حکمت عملی موثر ہو سکتی ہے جو ہمارے معاشرے کو مسلسل درست سمت کی جانب گامزن رکھ سکے اور عہد حاضر کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکے۔ ہمیں اپنے مقاصد، اہداف اور منزل کو کھوجنا پڑے گا۔ ہمیں اپنے جذبات اور احساسات کو ابھارنا ہوگا۔ ہمیں اپنی تڑپ کی جمالیاتی آبیاری کا آغاز کرنا ہوگا۔ ہمیں وحشت، خوف بیزاری، تناؤ اور بوریت کو سکون قطبی میں بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی شخصیت کی مضبوطی، ہمہ جہتی اور جاذبیت کے لیے نرگسیت کا تڑکا لگانا پڑے گا۔ یعنی تھوڑی بہت خودپسندی اور مکمل خود اعتمادی کے حصول کو اپنی شخصیت کا خاصہ بنانا پڑے گا۔
ہمیں زندگی میں غرض و غایت تلاش کرنا ہوگا غرض و غایت انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں دستیاب ہے۔ غرض و غایت کا شخصی (ذاتی ) احساس آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ استحکام اور سمت کا احساس دیتا ہے۔ یہ خوشگوار، پرجوش، اور دلچسپی سے بھرپور زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ جب امید و اطمینان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے تو خوشی کا باعث بنتا ہے۔ غرض و غایت، واضح مقصد اور سمت کا تعین، ذہنی آوارگی سے بچاتا ہے۔ یہ انتخاب کرنے کی منشا اور رویوں کو روایتی انداز سے نجات دلا کر نئے اور بہتر نقطہ نظر کا تناظر فراہم کرتا ہے۔ یہ ذہنی انتشار سے بچاتا ہے۔ یہ آلودہ گرہن زدہ سوچ سے آزادی پانے کی قوت ارادی ہے۔ اپنی آزادی کو ڈھونڈیے اسے جانچیے، پرکھیے اور خالص بنائیے اور اسے اپنی شخصیت اور زندگی کا شعار بنائیے۔ ہمارے انتخاب کا اخیتار جتنا شعوری ہوگا اتنا فیصلوں کے درست اور صحیح ہونے کا امکان ہوگا۔  یہ زندگی میں کامیابی، اطمینان اور آزادی پانے کا سب سے مختصر اور آسان راستہ ہے۔

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *