ہماری زندگی کے تجربات میں بہت ساری ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں ہم کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرتے۔ اس کی وجہ شاید اس تجربے کی اپنی تلخی ہو جسے ہم دوبارہ یاد کرکے اپنی طبیعت خراب نہیں کرنا چاہتے یا پھر شاید یہ ڈر کہ اگر میں یہ بات شئیر کردوں تو معاشرہ میں میری حیثیت کیا ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہمای انا اس قدر مضبوط ہوتی ہے جو ہمیں اپنی غلطی کو ماننے سے روکتی ہے، ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنے سے میری جو کمزوری سب کے سامنے آئے گی تو لوگ کیا کہیں گے۔
اپنی ایک ایسی ہی تلخ یادداشت آج آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
ایک ایسی بات جوہمیشہ کانٹے کی طرح میرے دل میں کھٹکتی ہے اور کبھی کبھار مجھے ضمیر اور وجدان کے شدید عذاب سے دوچار کرتی رہی ہے۔
میں آج وہ آپ سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور اپنی شرمندگی کے اظہار کے ساتھ ساتھ معافی کا طلبگار بھی ہوں۔
بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے کا تجربہ رکھنے والوں کیلئے یہ بات باعث تعجب نہیں ہوگی اور وہ یہ کہ روزانہ صبح کی اسمبلی کے دوران پورے سکول کے سامنے دس بیس بچوں کی شدید پٹائی اور بے عزتی کی جاتی تھی۔ اس کام کی لئے پی ٹی آئی نامی ایک مخلوق ہوتی تھی جس کی تعلیمی قابلیت تو کچھ بھی نہیں تھی البتہ اس کی ایک مخصوص ذمہ دای اور ڈیوٹی یہی تھی کہ ہر صبح بچوں کو چند وجوہات کی بنا پر لائنوں سے نکال کر سٹیج پر بلاتا اور پھر سب کے سامنے ان کو ڈنڈے مار کر ان کی عزت نفس کو مجروح کرکے ان کی شخصیت کو حتی الوسع خراب کرتا۔
اس تشدد کے لئے وہ مخصوص ڈنڈا رکھتے تھے۔ وہ بید کی چھڑی ہوتی تھی جس پر پلاسٹر چڑھایا جاتا تھا جس سے وہ ہٹا کٹا بالغ انسان، ایک دس بارہ یا پندرہ سال کے بچے کو نہائت بیدردی سے پِیٹتا۔
بچوں کو یہ سزا ملنے کی وجوہات بہت زیادہ اہم نہیں تھیں۔ اگر کوئی بچہ سکول لیٹ پہنچے، اپنے سینے پر سکول بیج پہننا بھول جائے، جوتے کی جگہ چپل پہن کر آجائے، وردی کی بجائے کوئی اور لباس پہنا ہو، یا گزشتہ روز بغیر درخواست جمع کیے غیر حاضر رہا ہو۔ بچوں کے یہ “جرائم” ان پر تشدد کے جواز فراہم کرنے کے لئے بہت کافی تھے۔
ان “پی ٹی آئی” صاحب کا کام ڈسپلن کے نام پر بچوں کو سکول سے بد دل کرنے کے علاوہ اور کیا تھا، نہیں معلوم لیکن رسمی طور پر ان کی نوکری یہی تھی کہ وہ بچوں کی جسمانی صحت کیلئے مختلف ورزشیں، کھیل اور اسی قسم کی صحتمندانہ سرگرمیوں کا انعقاد کرے۔ اس حیوانی تشدد کی ذمہ داری صرف پی ٹی آئی صاحب کی نہیں تھی بلکہ کئی اساتذہ کرام بھی اس جُرم میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔
جماعت میں سب بچے یکساں تعلیمی دلچسپی نہیں رکھتے جس کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں۔ گھر کی معاشی صورتحال، والدین کی اپنی تعلیمی یا فکری پہنچ اور تفہیم بنیادی وجوہات میں سے تھیں اور ہیں۔ اب ان وجوہات کے نتیجے میں اگر کوئی بچہ نصابی حوالے سے کمزور ہوتا تو بعض اساتذہ ان بچوں پر خصوصی توجہ دینے کی بجائے ان پر مزید تشدد کرتے۔ ان کو جسمانی سزا تو بہرحال دیتے لیکن جو سزا جسمانی سزا سے بھی زیادہ بدترین تھی، وہ ان بچوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا تھا اور میرے لکھنے کی وجہ اور اس تحریر کا موضوع بھی یہی سزا ہے۔
وہ سزا یہ تھی کہ کمزور بچے کو کلاس کے سامنے کھڑا کرکے، پوری کلاس سے اس پر “شیم شیم” کے نعرے لگواتا اور اس سے بھی بدتر یہ کہ جو بچے نسبتا قابل ہوتے یا یوں کہیے کہ استاد یا والدین کے ڈر کی وجہ سے اپنا ہوم ورک وغیرہ مکمل کرتے تھے، ان کو یہ کام سونپتے کہ وہ اس کمزور طالبعلم کے منہ پر تھپڑ مارے۔ مجھ سے بہت مرتبہ یہ کام لیا گیا ہے، یعنی میں نے اپنے ساتھی کلاس فیلوز کے منہ پر تھپڑ مارے ہیں۔ اس وقت تو ہم نہیں سمجھتے تھے اور اس کام کو ایک عام سی روزمرہ کی بات سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ جب میں نویں جماعت میں تھا اور رضاکارانہ طور پر چھٹی ساتویں کلاسوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا تو یہ قبیح عمل مجھ سے بھی سرزد ہوا یعنی میں نے بھی دو مرتبہ دو مختلف جماعتوں کے طالبعلموں کو تھپڑ مارے۔
مگر اب جب کبھی ان دنوں کو یاد کرتا ہوں تو یقین جانئے شدید کرب اور عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔
ایک لمحے کے لئے آپ خود کو اس بچے کی جگہ تصور کیجئے جسے پوری کلاس کے سامنے اس کے اپنے ہم جماعت سے تھپڑ لگ رہے ہوں۔ اس بچے کی شخصیت کی تباہی اور اس کی عزت نفس کی پامالی اور کیا ہوسکتی ہے؟
اب اگر آپ خود والدین ہیں تو اپنے بچے کو تصور کیجئے کہ کلاس روم میں کھڑا ہے اور استاد دوسرے بچے سے آپ کے بچے کے منہ پر تھپڑ مروارہا ہے۔ یہ تصور آپ کی روح تک کو جلا دینے کیلئے کافی ہے اور یہی تصور مجھے جس کرب میں مبتلا کرتا ہے اس کا احساس شاید آپ بھی کرسکیں۔
یہ مختصر تلخ یادداشت لکھ دینے سے یا آپ کے ساتھ شئیر کردینے سے میرے دل کا درد شاید کچھ ہلکا ہو، لہٰذا میں اپنی اس تحریر کے ذریعے اپنے ان تمام ہم جماعتوں سے دست بستہ معافی کا طلبگار ہوں۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔ کبھی مجھے میرے وہ ہم جماعت مل جائیں تو میں ان کے پیر پکڑ کر ان سے معافی مانگوں۔
Latest posts by اکبر علی (see all)
- میں شرمندہ ہوں ۔۔۔ اکبر علی - 16/12/2023
- اب بھی وقت ہے، افیون سے انکار کرو۔… - 14/01/2022
- کشتی شکستگانیم، ای بادِشُرطہ برخیز ۔۔۔ اکبر علی - 18/12/2021