حکمت عملی/طریقِ کار ۔۔۔ علی رضا منگول

سائنس کے مطابق اس کائنات میں کچھ بھی ساکن نہیں۔ یعنی حرکت ہی واحد حقیقت ہے جو پوری فطرت کا خاصہ ہے۔ اس اُصول کے مطابق کچھ بھی پہلے جیسا اپنی پرانی جگہ اور ہیت میں نہیں رہ سکتا اور مسلسل اپنا مقام اور شکل تبدیل کرنے کا پابند ہے۔

فطرت کے اس اُصول کے پیشِ نظر اگر تمام موجودات جن میں حیاتیاتی تبدیلی، کیمیائی تبدیلی، فزیکی/جسمانی تبدیلی، میکانکی اور سماجی تبدیلی مستقل ہے تو ہماری سوچوں کا بھی جامد اور سکون میں رہنا محال ہے۔ مگر انسانی سوچ روایت پسند ہونے کے ناطے سست قدم واقع ہوئی ہے یعنی ذرائع پیداوار، تکنیکی اور دیگر اِرتقاء کے برعکس اِنسانی فکر نِسبتاً سُست رَوی سے آگے بڑھتی ہے۔ مگر اس عمل کو شعوری طور پر تیز کیا جاسکتا ہے جو قدرے دِقت طلب ضرور ہے مگر ممکن ہے۔

موجودہ عالمگیریت کے دَور میں روایتی سوچ کے ساتھ اور پرانی ازکار رفتہ آزمودہ طریقِ کار کے ساتھ ان نئے حالات کے نئے چیلنجز کے ساتھ نبرد آزمائی کا مطلب ہے کہ اپنی توانائیوں کو ضائع کرنا۔ گوکہ یہ توانائیاں مکمل طور پر ضائع بھی نہیں ہوسکتیں البتہ زیادہ تر کوششوں کا بے سود ہوجانا یقینی ہے۔ ہماری ثقافت یعنی طرزِ معاشرت و زندگی ہمارے پاؤں کی بیڑیاں بن کررہ گئی ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہی ہیں۔ نئی طرزِ حیات کے لیے نئے علوم اور نئے سماجی طریقوں کا کھوج لگا کر نئے حالات سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے ہمیں روایتی پابند ملکی نصاب سے پہلے بغاوت کرنا ہوگا اور علوم کے ذخائر کو اپنے دماغ اور زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ دستیاب وسائل اس وقت انسانی ذہنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک خوبصورت اوزار ہے جنہیں بروئے کار لانے سے ہم اس قابل ہوسکتے ہیں کہ آنے والے حالات کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکیں۔

وہ علم ناقص اور گھٹیا ہے جو کسی واقع کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اس کا تجزیہ کرے، صحیح اور کارآمد علم وہ ہے جو حالات سے قبل اس کا تناظر اور پیش منظر مرتب کرے۔ اس کے بعد اس کے لیے حکمت عملی تربیب دینا بھی انہیں علوم کے تحت ممکن ہے۔ اس کے لیے ہمیں رائج تقریباً تمام علوم خصوصاً ایکولوجی، سیاسیات، معاشیات، سماجیات، نفسیات، تاریخ، فلسفہ،بین الاقوامی تعلقات اور دیگر سائنسی علوم کا سہارا لینا ہوگا۔ کیونکہ یہ تمام علوم نہ تو تنہا ہیں اور نا ہی ایک دوسرے سے لا تعلق اور بے اثر رہ سکتے ہیں۔ کائنات میں کوئی بھی شے یکہ و تنہا نہیں ہے تمام چیزیں دوسری چیزوں سے جڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے سے اثرات لیتی، اثرات ڈالتی اور ایک دوسرے کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ کسی بھی سوچ یا عمل کا اثر خواہ کتنا ہے طاقتور یا کمزور کیوں نہ ہو بے اثر قطعی نہیں ہوسکتا۔ ہمیں جدید علوم سے اثرات لے کر اپنے سماج کو جدید انداز میں متاثر کرکے اسے تبدیل کرنا ہے تاکہ اس حیوانی زندگی کو ایک انسانی زندگی میں منتقل کرسکیں۔

بقول آئن اسٹائن

“We cannot solve the problems by using the same kind of thinking we used when we created them”.

یعنی عین اسی طرح نئے حالات کے نئے تقاضوں کے پیشِ نظر مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ ہماری سوچ ہمارے حالات کا عکس ہوتی ہے کیونکہ سماجی وجود سماجی شعور کی بنیاد ہوتی ہے۔ لہٰذا حالات سے مبرّا کوئی سوچ جنم نہیں لے سکتی۔ ہمارا عمل ہماری علمیت کا نتیجہ ہونے کے ناطے جس پرانی طرز پہ اور گھسے پٹے راستوں سے ہم ہوکر آئے ہیں انہی کا نقش ہمارے ذہنوں پر حاوی ہوتے ہیں۔ شعوری مداخلت کے بغیر انسان نہ تو اپنے عمل میں جدت پیدا کرسکتا ہے اور نا ہی درست سمت اور اِرتقاء کے راستوں کا تعین کرسکتا ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ اپنا سوچ آفاقی رکھو اور عمل علاقائی، مگر اب یہ کارگر نہیں رہا، موجودہ بین الاقوامی سماج کے لیے بین الاقوامی طرزِ فکر اور طرزِ عمل کی ضرورت ہے۔ لہٰذا پرانے طریقوں کو اب بالائے طاق رکھ کر اپنے ہر عمل کو آفاقی بنا کر بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پرکھ کر آگے جانا ہے۔ بصورتِ دیگر ہماری بہت ساری توانائیوں  کاضائع ہونا یقینی ہے اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ اب سوچ اور عمل دونوں کو بین الاقوامی بنانا ہے اور آئندہ نسل کے لیے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ہماری موجودہ لڑائی خالص طبقاتی لڑائی اور اس نظامِ سرمایہ داری کے خلاف بنتی ہے کیونکہ دنیا کی تمام ریاستیں اب سامراجی طاقتوں کی دلالی میں اپنے عوام کے شدید استحصال میں بے شرمی کی حدیں پار کرچکی ہیں۔ جو اس دم توڑتی سرمایہ داری کو کسی طرح برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں۔اس نظام کو طبقاتی بنیادوں پر لڑتے ہوئے اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے لہٰذا نئی حکمت عملی کے تحت تمام مظلوم قوموں اور مظلوم طبقے کو مشترکہ جدوجہد کے ذریعے اس نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کوششیں کرنی ہوں گی۔

علی رضا منگول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *