نوش دارو بعد از مرگ سہراب ۔۔۔ علی رضا منگول

ایرانی مائتھالوجی میں رستم و سہراب کی داستان بہت مشہور ہے اور اسی داستان سے منسوب یہ ضرب المثل ہمارے حکمرانوں کی نالائقی، کم ظرفی اور حد درجے کی بے حِسی کو بے نقاب کرتی ہے۔
سنا ہے محکمہ صحت بلوچستان نے سول اسپتال کوئٹہ میں کانگو وائرس کے مریضوں کے لیے آئسولیشن وراڈ تعمیر کیا ہے۔ بہت بڑا فریب ہے یہ اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی 76 سالوں بعد بلوچستان کے لوگ علاج کے لیے دوسرے صوبوں کے محتاج ہیں۔ بلوچستان میں تو ایسا کوئی اسپتال ہی نہیں جہاں عوام کے دردوں کا تسلی بخش مداوا ہوسکے، اس لیے کہ ان اسپتالوں میں یا تو جدید طِبّی آلات موجود نہیں اور اگر کہیں کوئی مشین ہے بھی تو اکثر خراب پائی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں طِبّی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثر علاقوں میں BHU بیسک ہیلتھ یونٹ یا RHC رورل ہیلتھ سینٹر اور ڈسپنسریوں کو بطور اسپتال متعارف کیا گیا ہے جہاں عوام کو صرف ابتدائی طِبّی امداد کی سہولیات پہنچائی جاتی ہیں۔ ان برائے نام اسپتالوں کی اکثریت میں ڈاکٹرز تعینات نہیں لہٰذا ان مراکز کو ڈسپنسر زیا دیگر پیرامیڈکس چلاتے ہیں۔ ان پیرامیڈیکس کی تربیت بھی ابتدائی نوعیت، یعنی ایک سالہ تربیت پرمحیط ہوتی ہے۔ کیونکہ پورے بلوچستان میں پیرامیڈیکس کی مہارت کی ترقی کے لیے ایک بھی کالج نہیں ہے جہاں سے وہ اعلیٰ تعلیم اور جدید فنی تربیت حاصل کرسکیں۔ مگر یہی پیرامیڈیکس اپنے اسی محدود مہارت کے ساتھ دُور دراز علاقوں میں عوام کے لیے خدمات فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ ان پیرامیڈیکس کو صرف زبانی کلامی ریڑھ کی ہڈی ہونے کا برائے نام خطاب دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں یہی لوگ شعبۂ صحت میں سب سے اہم اور بنیادی کام سرانجام دیتے ہیں۔
بلوچستان میں اگر ان پیرامیڈیکس کو (جنہیں آج تک حقیر، غیر اہم اور بے توقیر سمجھا جاتا رہا ہے) محکمہ صحت سے علیحدہ کیا جاِئے تو اس صوبے اور افریقہ کے جنگلوں میں فرق مٹ جائے گا جہاں علاج کے لیے کوئی مستند و ماہر طبّی عملہ موجود نہیں اور علاج جڑی بوٹیوں سے کیا جاتا ہے۔ بہت کم ڈاکٹر صاحبان ایسے ہیں جو اپنے علاقوں کی میڈیکل سیٹوں پر کوٹہ سسٹم کے تحت آئے ہوں اور ڈاکٹر بن کر واپس اپنے علاقوں میں بہ رضا و رغبت کام کرنے گیے ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ وہ وہاں کام کرنا نہیں چاہتے بلکہ وجہ وہ ناکافی سہولیات ہیں جن میں زندگی کو آگے بڑھانا ناممکن ہے۔ اگر کسی ڈاکٹر کو بھی ایمرجنسی پڑجائے تو کوئٹہ پہنچنے تک اس کا رام نام ستیہ ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ اندزہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بلوچستان کے عوام کس دوزخ میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان میں بالخصوص اور پاکستان میں بالعموم حکمران طبقہ یعنی سول اور غیرسول بیوروکریسی، سیاست دان اور بڑے عہدوں پر مُتَمَکّن افراد اور دانشور سب چور، کام چور، بے حِس اور نالائق ہیں جنہوں نے بلوچستان کے ہر ایک ڈویژن میں تمام سہولیات سے مزیّن ایک ایک اسپتال نہیں بنایا۔ حالاں کہ 76 سالوں یہ سب ممکن تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ بہتری لائی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور انتہائی اہم شعبہ درس و تدریس یعنی (تعلیم) بھی ان خود غرض کم پڑھے لکھے سول اور غیرسول بیوروکریسی، کم پڑھے اور انپڑھ سیاست دانوں اور نام نہاد دانشور حلقے کو کبھی نظر نہیں آیا۔ اس شعبے میں بھی ہر ڈویژن میں ایک نہیں کئی مکمل یونیورسٹیاں اس مدت میں تعمیر ہوسکتی تھیں۔ مگر “فکرِ ہر کَس بقدرِ ہمت اُوست” اِن کم پڑھے لکھے لوگوں سے اس سے زیادہ کی توقع بھی تو درست نہیں۔ قبائلی نفسیات کے تحت یہاں کے آفیسران یا بڑے عہدیدار خود کو سردار، نواب، چودھری، خان اور راجہ تصور کرتے ہے۔ عوام سے ان کا تعلق اور رویہ بس ایک جاگیردار اور مزارع جیسا ہوتا ہے۔
چند دنوں قبل بلوچستان میں متعدد ڈاکٹر، نرس اور پیرامیڈکس کانگو وائرس سے متاثر ہوئے اورکئی ڈاکٹر اور پیرامیڈکس کا عملہ اس وائرس کے حملے سے جانبر بھی نہ ہوسکے۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ سہولیات اسقدر ناپید اور نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ایک ڈاکٹر کو علاج کی غرض سے اسپتال سے اٹھاکر کراچی لے جایا جاتا ہے۔ پاکستان میں عوامی سطح پر ہر کام جھوٹ نہیں سفید جھوٹ پر مبنی اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہوتا ہے۔ بجٹ، کورونا وائرس فنڈ، قدرتی آفات، وباء وغیرہ کا خیرات کے حصول کے لیے چرچا کیا جاتا ہے۔ دونمبر جعلی ادویات کو بھاری رشوت/کمیشن لے کرسرکاری اسپتالوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے کتے کے کاٹے کے علاج کا انجکشن اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہے۔ معمولی امراض کے علاج کے لیے ادویات اور لازمی آلات مفقود ہیں۔ مگر ادویات کے انچارج معمولی تنخواہوں میں والدین کے ہمراہ حج کرنے جاتے ہیں اور چند سالوں ہی میں بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن جاتے ہیں۔
محکمہ صحت اور سول اسپتال کوئٹہ کے جاگیرداروں نے “بعد از مردن ڈاکٹر اور ممبر پیرامیڈکس” کانگو وائس کے متاثرین اور عوام پر احسان کرکے وارڈ تعمیر کردیا ہے۔ اور بین الاقوامی ادارہ صحت کے نمائندے کے ہمراہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی غرض سے فوٹو سیشن بھی کیےہیں۔ محکمہ صحت کے ان چودھریوں کو عوام کی بہتر سہولیات سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ان کا استعداد ہی اس حد تک نہیں کہ یہ قبل از وقت کسی معاملے سے نمٹنے کے لیے تیاری کرسکیں۔ اس وقت سب سےزیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خود غرض سیاستدان، سول و نان سول بیوروکریسی، پروفیسرز اور دانشور اپنی استعداد کو بلند اور ادراک میں اضافہ کریں۔ عوامی خدمت کا دعویٰ قطعی انہیں زیب نہیں دیتا کیونکہ اب تو بڑی تیزی سے ٹیچنگ اسپتالوں کی نجکاری ان کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
دنیا میں ہرجگہ کسی بھی آفت یا مصیبت سے سبق حاصل کرکے آئندہ کے لیے اس سے محفوظ رہنے کی خاطر پیش بندی کی جاتی ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ دعا کرتا ہے کہ پچھلی مرتبہ کے جیسا کوئی آفت اس کے دور اختیار میں بھی آئے تاکہ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل امدادی فنڈز پر یاتھ صاف کرنے کا موقع پاسکے۔
فطرت میں ہر سطح پر ایک ترتیب موجود ہے جو مخصوص قوانین کا پابند ہے ان قوانین کو سمجھتے ہوئے ان مصیبتوں اور آفات سے بچا جاسکتا ہے۔ مگر ہماری یہ پہلی پڑھی لکھی نسل ابھی اس قابل ہی نہیں ہوسکی ہے کہ قدرت کے قوانین کو عوامی فائدے میں کام میں لاسکیں۔ آج تک پاکستان میں کوئی جامع ہیلتھ پالیسی تک نہیں بنا ئی جاسکی کیونکہ انسان اور انسانی صحت سے منسلک تمام شعبوں کا دھیان رکھنا ہوتا ہے جن میں اسپتال، تعلیم، خالص و مناسب خوراک، صاف پانی، سڑک و فٹ پاتھ، کھیل کا میدان، پارک، بجلی و گیس، صفائی ستھرائی، کچرہ وغیرہ کو سائنسی بنیادوں پر تلف کرنا، آلودگی، ٹرانسپورٹ، معیشت اور سیاست الغرض انسانی زندگی کو سہل اور آسان بنانے کے تمام شعبوں کو بہتر بنانے پر بھرپور کام کرنا ہوتا ہے۔ جو اس نااہل حکمران طبقے کی دانش اور علمیت میں امکان سے کوسوں دور ہے۔ پاکستان اور بلوچستان کی ترقی کے لیے نئی نسل کو اپنی استعداد اور مہارت میں انقلابی تبدیلیاں لانا لازمی ہے بصورت دیگر ان جاہل حکمرانوں سے امید رکھنا مزید دشواریوں کا سامنا کرنے کے مترادف ہے۔

علی رضا منگول
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *