ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ! ۔۔۔ اسحاق محمدی

کافی دنوں سے ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ کی تاریخ کے بارے میں مستند معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کررہا تھا تاکہ نئی نسل تک پہنچا سکوں۔ اس مقصد کے لئے ہزارہ ٹاؤن میں مقیم کئی دوستوں سے معلومات لینے کے لئے رابطے کئے لیکن تسلی بخش معلومات نہیں ملیں۔ پچھلے ہفتے یاد آیا کہ 80 کے اوائل میں جبکہ ہزارہ ٹاؤن وجود میں نہیں آیا تھا مجھے کئی بار حاجی محمد اکرم (منیجر سوئی سادرن گیس کمپنی) کے ساتھ بروری جانے کا اتفاق ہوا تھا، کیوں نہ ان سے رابطہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ مجھے پہلی بار بروری جانے کا اتفاق ایک رشتہ دار کے ہاں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے دوران ہوا تھا۔ شادی کی یہ تقریب بولان میڈیکل کالج کے عقب میں واقع ایک سرکاری کالونی میں ہوئی تھی جہاں چار پانچ ہزارہ فیملیز دیگر فیملیز کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ بعد از آں حاجی اکرم کے ساتھ اس وقت کے بروری اور حالیہ ہزارہ ٹاؤن کے کئی چکر لگانے پڑے۔ دراصل حاجی اکر م کے والد مرحوم حاجی سرورعلی نے سید باقرآغا سے مکمل ادائیگی کرکے ایک قطعہ زمین خرید لی تھی لیکن جب فرد حاصل کرنے کا مرحلہ آیا تو پتہ چلا کہ زمین کا قانونی فرد، اپنے وقت کے معروف بزنس مین اور سیاسی شخصیت سنیٹر ابراہیم زہری بلوچ کے نام ہے اور ان کا پیسوں کے لین دین پر سیدباقرآغا سے جھگڑا چل رہا ہے۔ ایک دو بار جب ہم آغا صاحب کے گھر گئے تو وہ نہیں ملے، بلاخیر جب ایک روز ملے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ابراہیم بلوچ صاحب کو ادائیگی کردی ہے، آپ فرد ان سے لے لیں، بعد میں جب  زہری صاحب سے رابطہ کیا تو موصوف نے کہا مجھے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی ہے لہذا میں بغیر ادائیگی کے فرد نہیں دے سکتا آپ یا مجھے زمین کی قیمت دیں یا پھر آغا باقر سے اپنے پیسے واپس لے لیں۔ ہم دوبارہ جب آغا صاحب سے ملے تو انہوں نے اپنی وہی پرانی بات دوہرائی۔ حاجی اکرم نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنا مسلہ تو حل کردیا لیکن باقی ایک درجن کے قریب خریداروں کا جھگڑا طویل عرصے تک چلتا رہا جن میں محمدعلی ایڈوکیٹ بھی شامل تھے جو یہ معاملہ کورٹ لیکر گئے، باقی زیادہ تر کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے غریب مزدور تھے جو سوائے دعا اور بد دعا دینےکےاور کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ 

خیر جب حاجی اکرم کے ساتھ اس موضوع پربات ہوئی تو پتہ چلا کہ بلاخیر میں اصل منبع تک پہنچ گیا ہوں اور یہ کہ ہزارہ ٹاؤن کی بنیاد کیسے پڑی۔ “حاجی اکرم کے مطابق 80 کی دہائی کے اوائل کے دوران کئی بار حاجی احمد توکلی مرحوم میرے مرحوم والد سے ملنے آئے اور بروری میں زمینوں کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی کیونکہ مری آباد میں زمینیں کافی مہنگی ہوگئی ہیں اور ایک عام آدمی کے پہنچ سے باہر ہیں، اس لیے سرمایہ کاری کےلیے یہ ایک اچھا موقع ہے، لیکن اپنے پچھلے تلخ تجربہ کی بنا پر والد مرحوم پہلے پہل راضی نہیں ہوئے لیکن حاجی احمد توکلی کے اصرار پر آخر کار وہ راضی ہوگئے۔ ایک دن میرے مرحوم والد نے کہا کہ فلاں روز اتنے بجے گاڑی لیکر فلاں جگہ پہنچ جانا بروری میں زمین دیکھنے جانا ہے۔ مقررہ دن اور جگہ پر جب میں پہنچا تو آٹھ نو لوگ تھے جن میں حاجی احمد توکلی، حاجی صادق، حاجی علی رحیم اور شیخ وثوقی (اکثر مرحوم ہوگئے ہیں) وغیرہ شامل تھے۔ ان سب کو گاڑی میں ٹھونس کر ہم بروری پہنچے تو ایک درخت کے نیچے ایک بڑی عمر کے شخص کو منتظر پایا جو رضوی صاحب کے نام سے معروف تھے۔ وہ 70، 75 کے پیٹے میں تھے اور کسی دانشور کی طرح ان کے سر کے درمیان سے بال غائب تھے۔ ان سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو موصوف نے کہا کہ میں فٹ کے حساب سے (فٹانہ) کوئی سودا نہیں کرونگا سودا ایکڑ کے حساب سے ہوگا اور ادائیگی بھی یک مشت چاہیے۔ کافی چینہ بازی کے بعد تقریباً 70 ہزار فی ایکٹ پر سودا طے ہوا، اسکے بعد خریداروں کی باری آئی کہ کس کو کتنی ایکڑ زمین لینی ہے، کسی نے ایک ایکڑ، کسی نے دو ایکڑ اور کسی نے تین ایکڑ خریدنے کی حامی بھری، میرے مرحوم والد  ایک ایکڑ خریدنے پر راضی ہوئے، یوں کل ملا کر 20 ایکڑ کے آس پاس زمین خریدنے کی بات پکی ہوگئی۔ وہاں سے ہم سیدھے امام بارگاہ ہزارہ ناصرآباد گئے، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور نماز کے بعد اس نئی ہزارہ آبادی کے قیام کا اعلان کردیا۔ لوگ کافی خوش ہوئے اور اس نئی آبادی کا نام رکھنے پر اصرار کیا۔ کئی نام پیش ہوئے میں نے (حاجی اکرم) نے علی آباد نام رکھنے کی تجویز دی لیکن اکثریت نے “ہزارہ ٹاؤن” نام رکھنے سے اتفاق کیا۔ دعائے خیر ہوئی اوربعدازآں اس نئی ہزارہ آبادی کی پلاٹنگ اور تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ حاجی اکرم کے مطابق پہلے پہل خریداروں میں زیادہ تر وہ قریبی رشتے دار اور جاننے والے شامل تھے جو مری آباد میں گھر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے”۔

80 کے اوائل میں 20 ایکڑ کے قطعہ زمین سے شروع ہونے والے ہزارہ ٹاؤن کی آبادی اس وقت  ایک طرف مغربی بائی پاس اور لووڑ ندی تک پہنچ گئی ہے جبکہ دوسری طرف کرانی روڑ سے کہیں آگے پہنچ چکی ہے۔ اب وہاں کا اپنا ایم پی اے ہے، کئی کونسلرز ہیں، کئی کالجز، سکولز، لائیبریری، بیسیک ہیلتھ سینٹرزکھیل کے میدان اور درجنوں شاپنگ پلازے ہیں۔ آبادی کھلی ڈھلی ہے علمدار روڑ بطورخاص مری آباد کی طرح گنجان آباد نہیں۔

نوٹ:

قیمتی معلومات فراہم کرنے پرجناب حاجی محمد اکرم کا تہ دل سے مشکور ہوں۔

اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *