ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن (دوسری قسط) ۔۔۔ اسحاق محمدی

*
 فیڈریشن کے انتخابات جیتنے کے بعد ہم تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر پوری نیک نیتی سے اجتماعی قومی مفادات کے حصول میں جت گئے لیکن حیدری صاحب نے قوم کی واحد نمایندہ طلبہ فیڈریشن کو اپنی اندھا دھند پیروی سے انکار کی پاداش میں اس قومی ادارہ سے اخراج کا تہیہ کرلیا تھا۔ چنانچہ ایک طرف فیڈریشن رہنماوں کی ذاتی کردارکشی کی جانے لگی اور دوسری طرف آئے روز کبھی 14 نکات کھبی 19 نکات کے ذریعے ہماری لب کشائی پر باقاعدہ پابندیاں لگنے لگیں یعنی سیاسیات اور اجتماعی موضوعات پر گفتگو کرنا غیرشرعی قرار پایا۔ یوں بدقسمتی سے تنظیم نسل نو ہزارہ مغل، کسی تعفن زدہ ملائی مدرسہ کی طرح ایک رجعت پسند سینٹربن گئی جہاں افکار تازہ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن ان سب کے باوجود جب ہمارے دوستوں نے گٹھن کے اس ماحول میں بھی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا تو حیدری صاحب نے ایک کھلا مناظرہ کرنے کا چیلینج دیا جسے ہم نے بخوشی قبول کیا۔ مقررہ تاریخ کو خدیجہ محمودی ہال میں تنظیم نسل نو ہزارہ مغل اور ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کابینہ اراکین جمع ہوگئے۔ تنظیم کی طرف سے خود حیدری جبکہ ایچ ایس ایف کی طرف سے شادروان عالم مصباح مرکزی سپیکر تھے۔ حیدری صاحب کا شاید یہ خیال تھا کہ ہم اپنی کردارکشی کے حوالے سے یا پھر ان کی طرف سے ایچ ایس ایف کے اندرونی معاملات میں بیجا مداخلت پر شکایات کا دفتر کھولیں گے، لیکن ان کے تصورات کے برعکس جب ہم نے قومی مفادات کے حوالے سے ںظریہ (Ideology) اور لائحہ عمل (Strategy) پر گفتگو شروع کی تو یقین جانیے حیدری موصوف کے پاس آئیں بائیں شائیں کرنے کے علاوہ کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا جس کے سبب ان کی کابینہ کے اکثر اراکین ہال سے ایک ایک کرکے نکلتے گئے۔ خوش قسمتی سے اس نشست کی آڈیو ریکارڈنگ اب بھی موجود ہے۔ (اس نشست کے دوران ایک دلچسپ واقعہ بھی ہوا جس کی تفصیل اس آرٹیکل کے طویل ہونے ہونے کے سبب کسی اور موقع کے لئے رکھتے ہیں)
اس نشست کے چند دنوں کے بعد حیدری صاحب نے قوم کی واحد نمائندہ طلبہ تنظیم یعنی ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کو بے بنیاد الزامات لگا کر تنظیم بدری کا حکم دیا۔ بے بنیاد اس لئے کہ اس کے بعد موصوف نے ایک مکمل “بھائی” (ڈکٹیٹر) کا اس طرح روپ دھار لیا کہ بقول تنظیم کے ایک تا حیات ممبر “آخر میں حیدری جان کے ساتھ صرف دو ممبر رہ گئے تھے”۔ ایچ ایس ایف کی تنظیم بدری کے بعد وقفوں وقفوں سے درج ذیل حیدری بدریاں (اخراج) ہوئیں:
الف- شہید چیرمیئن حسین علی یوسفی اور حسن رضا چنگیزی
ب- پروفیسر عبدالحسن، سید احمد ہزارہ، مرحوم اسحاقو، لیاقت علی داور اپنے دو درجن کے قریب ساتھیوں سمیت
پ- قومی شاعر مرحوم محمدعلی اختیار، سیٹنگ چیئرمیئن محمد جوادایثار اپنے 40 سے زائد ساتھوں سمیت جو بعد میں مزاری ہاؤس والے کہلائے اور اس کے بعد تنظیم بدری کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
مضحکہ خیز طور حیدری صاحب نے ان سب پر بھی، کم و بیش اسی طرح کے بے بنیاد الزامات لگائے تھے اور پھر اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئےاسے مزید درجنوں جھوٹے الزامات سے بھرپور”وائٹ پیپرز” نکالنا پڑا تھا
تنظیم بدری کے بعد ہم تقریباً تین مہینوں تک روڑ پر رہے کیونکہ ہزارہ عیدگاہ کے اوپر بنے کمروں میں زیادہ تر افغان مہاجرین رہتے تھے جن سے مالک کو زیادہ کرایہ ملتا تھا جبکہ ہم اتنا کرایہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ ہم شام کے وقت حبیب بنک کے تھڑے سے لیکر مغل اسٹشنری کے آگے بنے تھڑے تک علمدار روڑ کے دونوں اطراف براجمان ہوجاتے، ممبران، بہی خواہوں ودیگر سیاسی لوگوں سے ملتے، کالجز و یونیورسٹی یا باہر کے پروگرامز بناتے۔ اسی دوران ہم نے تمام اہم ہزارہ سیاسی و غیر سیاسی شخصیات جیسے ارباب آصف، حاجی نورمحمد صراف، حاجی طالب حسین ہزارہ، سردار سعادت علی ہزارہ، سردار نثارعلی ہزارہ، ہزارہ آفیسرز سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ صوبے کی اہم سیاسی جماعتوں بی این پی، اے این پی، پشتونخواہ کے قائدین کے علاوہ ان کی ذیلی طلبہ تنظیموں بی ایس او، پی ایس او، پی ایس یف کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کیں، جس سے قوم کے اندر ہزارہ ایس ایف کو ایک جداگانہ شناخت ملی اور غیر ہزارہ میں اس کے اِمیج کو اتنا بہتر بنایا کہ آل پاکستان پروگریسیو سٹوڈنٹس الائنس (پی پی ایس اے) کی صوبائی جنرل سیکریٹری شپ بھی ملی۔ تین مہینہ بعد جب لوکل انتظامیہ نے افغان مہاجرین پر کچھ سختیاں شروع کیں تب ایک شام منشی بوستان نے اسی تھڑے پر آکر یہ خوشخبری دی کہ حاجی صاحب ہمیں ایک کمرہ 600 روپیہ ماہانہ کرایہ پر دینے کے لئے راضی ہیں۔ یوں ہم بالائی ہزارہ عیدگاہ کے ایک کمرہ میں شفٹ ہوگئے۔ مختصراً میرے ڈھائی سالہ دور میں درج ذیل اہم کام ہزارہ ایس ایف بینر تلے انجام پائے:
1- جنرل باڈی سے منظوری کے بعد ہزارہ ایس ایف کا نیا دستورالعمل اور جھنڈا بنا
2- پی پی ایس اے کی صوبائی جنرل سیکریٹری شپ ملی
3- ہزارہ پروگریسیو فورم ( ایچ پی ایف) کے ساتھ “ہزارہ پروگریسیو الائینز” بنا جسکا مقصد قوم میں ترقی پسند رحجان کا فروغ اور ترقی پسند قوتوں کو معاشرہِ میں آگے لانا مقصود تھا۔ یہ الائینز تمام تر اونچ نیچ کے ساتھ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن ڈاکٹر حسین یاسا کے دور میں طاہرخان ہزارہ نے ایچ ایس ایف کو اعتماد میں لئے بغیر اسے یکطرفہ طورپرختم کردیا جس سے ترقی پسند قوتوں کو کافی دھچکا لگا
4- سب سے زیادہ سیاسی و ثقافتی فنکشنز ہوئے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں سالانہ سیاسی و ثقافتی پروگرام “اوماغ” اور جنرل موسیٰ خان کالج میں سالانہ ثقافتی پروگرام “شبھای ترنم” سلسلے کا آغاز ہوا، کئی کامیاب ڈرامے اسٹیج ہوئے جن میں الخاتو، مائیندر خنتوما اور پہلا ٹریجیک ہزارہ گی ڈرامہ خالق شہید بطور خاص شامل ہیں۔
5- ہزارہ ایس ایف گرلز سیکشن کے توسط گرلزکالج کوئٹہ کے ثقافتی شوز میں ہزارہ ثقافت کو مستقل حیثیت دلائی
6- ادبی تنظیم “موسسہ فرہنگی” کی تشکیل ہوئی جس کے تحت معروف ہزارہ شناس روسی مورخ تیمورخانوف کی کتاب، تاریخ ہزارہ مغل کی اشاعت ہوئی جس کا جناب حسن رضا چنگیزی نے فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ معروف ہزارہ مورخ محمد افضل اورزگانی کی کتاب “المختصرالمنقول” مطبوعہ 1914ء کوئٹہ برٹش بلوچستان کی کتابت شادروان محمدعالم مصباح کے زیر نگرانی آخری مراحل میں تھی کہ اس کی اشاعت قم ایران سے ہوئی اور اس کی طباعت کی ضرورت نہیں رہی
7- ہزارہ ایس ایف کا ترجمان آرگن “طلوع فکر” کے سب سے زیادہ شمارے اسی دور میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔ ہر شمارہ کی سرکولیشن ہزار کاپیاں تھیں
8- ہزارہ ٹاون میں بوائز سکول کے لئے زمین خریدی گئی جو اب ہائی سکول بن چکا ہے۔ یاد رہے کہ سکول زمین کی ڈیمارکیشن کے موقع پر ہزارہ ٹاؤن یونٹ کے دوستوں احمدعلی کہزاد، قادرعلی نائل، تقی خان آزرہ، انور آزرہ، شریف، ناصر جے ہزارستانی اور دیگر جو اس وقت سکول میں زیر تعلیم تھے نے ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام بھی کیا تھا۔ خیرسے آج ان میں سے کئی ایک ایچ ڈی پی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سکول کی چاردیواری اور ابتدائی چند کمروں کی تعمیر کے لئے فنڈز میرے یزدان خان سکول دور میں فارسی کے استاد جناب حشمت علی صاحب نے ایک پروجیکٹ سے فراہم کیے جس کے وہ اس وقت انچارج تھے، اسکی تفصیل کسی اور وقت کے لئے رکھتے ہیں۔
اسحاق محمدی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *