جس طرح انسان کے مادی جسم میں ظاہری قوتیں پائی جاتی ہیں جن کو ہم حواس خمسہ کہتے ہیں( یہ سونگھنے، چھکنے، مس کرنے، دیکھنے اور سننے کی قوتیں ہیں)، اسی طرح انسان کا وجود مختلف قسم کے باطنی قوتوں کا مسکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ایک ولی، عارف کامل اور مفکر نے اپنے من میں ڈوبنے اور اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔
اپنی ذات کی معرفت کیا ہے؟ انسان اس کو کیسے حاصل کر سکتا ہے؟
اپنی ذات کی معرفت کا تعلق کسی خاص مذہب یا فرقے سے ہرگز نہیں ہے۔ یہ ہر انسان کو اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے اس طرح ضروری ہے جس طرح زندہ رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا تعلق ان قدرتی قوانین سے ہے جو دنیا کے ہر ذی شعور انسان پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہ وہ باطنی طاقتیں ہیں جو انسانی حیات پر ہر لمحہ اور ہر وقت اثر انداز ہوتے ہیں۔
انسانی اقدار اور اخلاق انہی باطنی قوتوں سے بنتے ہیں۔ انسان کے کردار پر ان کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ جب تک انسان ان باطنی قوتوں کا ادراک نہیں کرتا۔ اوراپنے باطن کی معرفت حاصل نہیں کرتا، تب تک وہ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد نہیں بن سکتا۔ انسان کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ اپنے مسائل کے لئے خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزرتا۔ وہ اپنی مشکلات اور تکالیف کے لئے اپنے علاوہ ساری دنیا کوذمہ دار ٹہراتا ہے۔ جب تک انسان اپنی غلطی اور کوتاہی کو تسلیم کرنے سے گریزاں رہتا ہے، اس وقت تک اس کے وجود میں شر کا عنصر موجود رہتا ہے۔ یہ شر بعد میں جا کر پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پھر یہ مسئلہ ایک فرد تک محدود نہیں رہتا۔ پہلے انسان اپنے کسی غلط عمل کا دفاع کرتا ہے، پھر یہ بات قوم اور قبیلے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کا من درست فیصلہ کرنے اور حق کا ساتھ دینے سے انکاری رہتا ہے۔ یہیں سے مختلف قسم کے قلبی امراض یعنی انا، حسد، غرو، تکبر اور نفرت کی ابتداءہو جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء، عرفا، فقراء اور مفکرین نے اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ ان مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب انسان تہذیب نفس کی ابتداء اپنی ذات سے شروع کرے۔ تزکیہ نفس کیا ہے؟ ہمیں اپنی ذات میں جھانکنے کا کس طرح پتا چلے گا؟ ہم کس طرح اپنی ذات کی معرفت حاصل سکتے ہیں؟
معرفت نفس کی ابتداء یہ ہے کہ انسان اپنے من میں موجود باطنی قوتوں کو دریافت کرے اور ان کو دریافت کے بعد ان سرکش قوتوں میں اعتدال قائم کرے۔
عام طور پر جن قوتوں کا ذکر فلاسفا نے کیا ہے ان میں قوت غضبیہ، قوت شہویہ، قوت عاقلہ اور قور واہمہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان قوتوں کا اپنی اپنی حدود میں رہنا ضروری ہے۔ ان کا حد اعتدال سے بڑھ جانا یا کم ہوجانا، انسان کے جسمانی نظام کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بہترین انسان وہی ہوتا ہے جو ان قوتوں کو توازن میں رکھنے پر قدرت رکھتا ہو۔ اگر انسان کی یہ قوتیں حد اعتدال میں ہوں گی تو جسم میں شر اور فساد پرپا نہیں ہو گا۔ اگر ان قوتوں میں ذرا بھی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسانی ذہن کا یہ فساد پورے انسانی معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسان اپنے اندر عدل کے نفاذ میں ناکام ہو چکا ہوتا ہے۔ اب وہ اپنے اندر سرکش باطنی قوتوں کا غلام بن کر اپنی ذاتی انانیت اور فرعونیت کو تسکین دے رہا ہوتا ہے۔ وہ درست فیصلہ کرنے سے عاری ہوجاتا ہے۔ اس وقت اس کو کسی دوسرے انسان کے جانی اور مالی نقصان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ معاشرے میں شرانگیزی اور فساد کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے من کا تزکیہ نہیں کرتا۔ اپنی سرکش باطنی قوتوں کو حد اعتدال میں رکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جن سرکش گھوڑوں پر انسان سوار ہے ان کو کنٹرول میں رکھنے اور درست سمت میں چلانے کی ذمہ داری بھی انسان کی ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی غصے کا گھوڑا قابو سے باہر ہوجاتا ہے تو کبھی کوئی اور باطنی قوت بے لگام ہو جاتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان دوسرے لوگوں، قوموں اور حکومتوں کو مورد الزام ٹہرانے کی بجائے اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کرے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ” اگر دنیا میں انقلاب لانا چاہتے ہو تو تہذیب نفس کا آغاز اپنی ذات سے کرو، دنیا خود بخود بدل جائے گی”۔
Latest posts by میر افضل خان طوری (see all)