کتاب ۔۔۔۔ میر افضل خان طوری

دنیا کی سب سے پہلی کتاب وہ چلتا پھرتا انسان تھا۔ جس وقت تحریر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ ہر تجربہ کار انسان ایک کتاب کی مانند ہوا کرتا تھا۔ دور دراز سے لوگ ان سے فن اور تجربہ حاصل کرنے کیلئے تشریف لایا کرتے تھے۔ اس طرح تجربہ اور فن ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہو جایا کرتا تھا۔ جب انسان نے الفاظ لکھنا سیکھا تو اسکے بعد ان الفاظ کو درختوں کے پتوں اور چمڑے وغیرہ پر لکھ کر محفوظ کیا جانے لگا۔ یوں انسان اپنے علم اور تاریخ کو اگلی نسلوں تک منتقل کرتا گیا۔
دینا میں ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم ،فن اور تجربے کو کسی کتاب کے ذریعے اپنے آنے والی نسلوں تک پہنچا سکے۔ ہومر سے لے کر سقراط ، افلاطون، ارسطو ، الکندی، ابن سینا ، ڈارون ، نیپولین ہل ، سٹفن آر کوے اور سٹفن ہاکنگ تک سب نے اپنے علم ، تحقیق، تجربہ اور فن کو آنے والی نسلوں تک باقی رکھنے کیلئے کتابیں لکھیں۔ یورپ ، امریکہ اور جاپان میں سب سے زیادہ بکنے والی کتابیں اخلاقیات پر لکھی نظر آتی ہیں۔ انسانی ارتقاء، سوچ ، خیالات، باڈی لینگویج اور عادات کو بہترین بنانے کیلئے کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعے نے ان کی آنے والی نسلوں میں اتنا جوش ، جذبہ اور جنون پیدا کیا کہ وہ آج تعلیمی اور اخلاقی اقدار میں منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ جاپان میں اخلاقیات کو پرائمری سے لے کر اعلی سطح تک پڑھانا لازمی ہے۔ یہی وجہ سے کہ وہ دنیا کے مہذب ترین قوموں کی صف اول میں نظر آرہے ہیں ۔
بدقسمتی سے پیارے وطن پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابیں حکیموں ، مذہبی شدت پسندوں، سیاست دانوں اور جرنیلوں کی ہیں۔ ان تمام تر کتابوں کا سب بڑا مقصد عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان کے ذہنوں میں جھوٹ اور تعصب بھرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر کتابیں دوسروں کی عزت کو داغدار کرنے، ان کی ذاتی اور نجی زندگی پر وار کرنے، لوگوں کو بدنام کرنے، مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے لئے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں ۔
جس معاشرے کی بڑی اور نامور شخصیات ایک دوسرے کی اچھی حصلتوں اور خوبیوں کو ابھارنے کی بجائے ان کے منفی پہلوؤں کو بیان کرنے کیلئے کتابیں لکھتی ہیں اس معاشرے سے کسی بھی اچھائی کی توقع رکھنا فضول ہے۔
ویسے ہمیں کسی بھی بیرونی دشمن کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے نام کو ساری دنیا میں رسوا کرنے کے لئے ہم خود کافی ہیں۔ ہم ملک اور لیڈروں کے منفی امیج کی بجائے مثبت امیج پر بھی کتابیں لکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے منفی رازوں کو دنیا کے سامنے بیان کرنے کی بجائے بہت سے اچھے اور مثبت رازوں پر بھی بات کر سکتے ہیں۔
لیکن ہم ایسا ہرگز بھی نہیں کرتے کیونکہ پاکستانی سیاست دانوں، جر نیلوں اور عوام نے بیرونی دنیا میں اپنے ملک اور اداروں کی بدنامی کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔
ہم انڈیا کے ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ملک کا برا کرتے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ہم بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سیاستدانوں اور نیشنل ہیروز کی انڈین ٹی وی پر برائیاں کرتے فِخر محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس ملک اور اداروں کے بارے میں کوئی مثبت بات نہیں ہے۔۔۔؟ کیا ہم نے آج تک کوئی ترقی نہیں کی۔۔۔۔؟ جس ملک کے پاس قائداعظم محمد علی جناح کو سلامتی دینے کیلئے توپ کے گولے تک نہیں تھے۔ آج وہ دنیا کی چھٹی بڑی طاقت ہے۔
کیا ہم پاکستان میں ہونیوالے مثبت تبدیلیوں پر کتابیں نہیں لکھ سکتے۔۔۔؟ کیا ہم اپنی نسلوں کو تہذیب یافتہ بنانے کیلئے کتابیں نہیں لکھ سکتے۔۔۔۔؟ کیا ہم لوگوں کی خوبیوں اور اچھائیوں پر کتابیں لکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔۔۔۔؟ لوگوں پر کتابیں لکھ کر انکی تذلیل کرنا اور ساری دنیا میں اپنے ملک کا تماشہ کھڑا کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔۔۔؟ اپنے اداروں پر کتابیں لکھنا اور ساری دنیا میں ملک کو رسوا کرنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔۔۔؟
تمام نوجوانوں کا فرض بنتا ہے کہ ایسے افراد کی سوچ کے بجائے مثب سوچ کو اجاگر کریں۔ اللہ تعالی اپنی مخلوق کو رسوا کرنے کا کسی کو حکم نہیں دیتا بلکہ وہ تو لوگوں کے عیبوں کو چھپانے کا حکم دیتا ہے۔
جب ہم مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ کتابیں لکھیں گے تو تب ہماری قوم بھی دنیا کی تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوگی۔
 
میر افضل خان طوری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *