ہمارے ہاں گھروں میں لوازمات زندگی کی تمام چیزیں اور آسائشیں موجود ہوتی ہیں لیکن دو چیزیں دوربین کے ذریعے بھی دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔
1۔ کتابیں اور
2۔ دیواروں پر لگی پینٹنگز
وجہ یہ ہے کہ ہمارے ماں باپ، دوست احباب اور ٹیچرز درسی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھنے پر زورہی نہیں دیتے۔
لائبریری سے ہمارے لوگ اب بھی بیگانے ہیں اور ہم جو میاں نصیحت بنے بیٹھے ہیں، ہمیں بھی عمر کے آخری حصے میں کتابوں کی اہمیت کے بارے میں بخار چڑھ گیا ہے۔
آسٹریلیا میں لوگ بہت مصروف زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن میں نے ٹرین میں اکثر لوگوں کوکتاب پڑھتے دیکھا ہے حتیٰ کہ ایک بار ایک بس اسٹاپ پر ڈرائیور کو بھی کتاب کا مطالعہ کرتے دیکھا۔
ہم جس اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہوتے ہیں، وہاں کتابوں کی ایک چھوٹی سی الماری ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے لوگ کتابوں کے شوقین نہیں اس لیے کتابوں کی قیمت دیکھ کر ہی بڑ بڑانے لگتے ہیں کہ
گم کرو فضول ہے!
ہم فارغ اوقات میں ہر منٹ بلکہ ہر سیکنڈ فیس بک چیک کر رہے ہوتے ہیں لیکن کتاب ہمارے لئے ایک بور چیز ہوتی ہے۔
گستاخی معاف! ایسے معاشرے میں جہاں لوگوں کا زیادہ تر وقت کھیل کود، سوشل میڈیا کے استعمال اور مذہبی رسومات میں گزر جاتا ہو، وہاں حسن رضا چنگیزی جیسے افراد کا کتاب لکھنا لوگوں کے لئے اہمیت رکھتا ہو یا نہیں، لیکن تاریخ میں ایسے افراد لائبریریوں میں رکھی اپنی کتابوں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کا سہارا لے کر میں حسن رضا چنگیزی کے متعلق کچھ بیان کروں، جو ان کے شایان شان بھی ہوں۔
میں نے حسن رضا چنگیزی کو مستقل مزاج اور بہت مضبوط انسان پایا۔ جنہوں نے اگر ایک طرف اپنی تصانیف، تاریخ ہزارہ مغل، بساط شطرنج، قصہ ہائے ناتمام سمیت دیگر تحاریر اور میوزک اسٹوڈیو سے لوگوں کے دلوں میں اپنا ایک مقام بنا لیا ہے تو دوسری طرف تلخ جملوں اور تلخ رویوں کا سامنا بھی کیا ہے۔
میری طرف سے ان کو کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور ڈھیر ساری شبھ کامنائیں۔
Latest posts by لیاقت علی (see all)
- ان کے بھی سینے میں دل ہے ۔۔۔ لیاقت علی - 16/10/2020
- نہ تقریر متاثر کن تھی نہ کوئی واضح پروگرام تھا۔۔۔ لیاقت علی - 31/01/2020
- خالق ہزارہ کا عوام سے صلاح مشورہ ۔۔۔ لیاقت علی - 29/01/2020