ہزارہ کلچر ڈے ۔۔۔ حسن رضا چنگیزی

ہزارہ کلچر ڈے

تحریر:  حسن رضا چنگیزی
یہ 1987-88 کی بات ہے۔ ان دنوں میں بلوچستان یونیورسٹی کا طالب علم اور ہزارہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا. ہمارا دفتر تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی بالائی منزل پر تھا۔ تنظیم اور ایچ ایس ایف اجتماعی امور سے متعلق سرگرمیاں عموماً مشترکہ طور پر انجام دیا کرتی تھیں جن میں سیمینارز، ہزارہ گی تھیٹراورموسیقی کی محافل کا انعقاد بھی شامل تھا۔ انہیں دنوں دونوں تنظیموں نے باہمی اشتراک سے ہزارہ گی ثقافت سے جڑی بعض دستیاب اشیاء کی تین روزہ نمائش کا اہتمام کیا۔ یہ نمائش تنظیم کے خدیجہ محمودی ہال میں ہونی تھی جس کے لئے کئی ہفتے قبل کمپین اور تیاریوں کا آغاز ہوا۔ نمائش کے دوران ہال میں چاروں طرف متعدد سٹالز لگائے گئے اور ان پر ہزارہ گی دستکاریاں، لباس اور زیورات سمیت ہزارہ گی ثقافت سے جڑی دیگر اشیاء رکھی گئیں۔ تین دنوں تک تنظیم کے دروازے ہر “خاص و عام” کے لئے کھلے رکھے گئے۔ لوگ بڑی تعداد میں آتے اور نمائش میں سجی اشیاء کا نظارہ کرنے کے علاوہ ان سے متعلق معلومات حاصل کرکے چلے جاتے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے نمائشوں کا یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ اس دوران میں نے جو دلچسپ بات نوٹ کی وہ یہ تھی کہ ان نمائشوں کے دوران جہاں لوگوں کی اکثریت ہزارہ گی دستکاریوں اور دیگر مصنوعات میں دلچسپی، خوشی اور حیرت کا اظہار کرتی نظر آئی وہاں ایسے لوگ بھی ملے جن کے چہرے کے تاثرات ان مصنوعات کو دیکھ یکسر بدل جاتے اور ان کے چہروں سے ناگواری صاف ٹپکنے لگتی۔

اس بات کا احساس مجھے اس وقت اور بھی زیادہ ہوا جب میں نے ان اشخاص سے ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ کیونکہ میری ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں ایک چھوٹا سا ویڈیو کیمرہ اٹھائے نمائش میں شریک مہمانوں کے تاثرات ریکارڈ کروں۔ دلچسپ بلکہ ناقابل باور بات یہ تھی کہ ہزارہ گی لباس اور مصنوعات سے متعلق ناگواری کا مظاہرہ کرنے والوں کا تعلق زیادہ تر افغانستان اور ایران آنے اور جانے والے ان مسافروں سے تھا جو سفر کے دوران مختصر مدت کے لئے علمدار روڈ کے مسافر خانوں میں قیام کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ ان مصنوعات کی نمائش ایک توہین آمیز عمل ہے کیونکہ انہیں دیہاتی لوگ استعمال کرتے ہیں اور شہری بابو انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں عورتوں کے لباس اور زیورات کی نمائش بھی ایک “غیر اخلاقی” اور “غیر شرعی” عمل تھا۔
اپنی ثقافت سے بیگانگی اور نفرت کا اظہار کرنے والے ان لوگوں کی یہ سوچ اگرچہ پہلے پہل ہمارے لئے افسوس اور حیرت کا باعث تھی لیکن بعد کے تجربات سے ہمارا افسوس اور حیرت ان کے لئے ہمدردی میں بدل گیا۔ 
ہواں یوں کہ 1990 یا غالباََ 1991 میں جب میں ایچ ایس ایف کے بعض دیگر سینئر دوستوں کے ساتھ  افغان حکومت کی دعوت پر کابل گیا تو وہاں ہزارہ قوم کی حالت اور مورال کو دیکھتے ہوئے اس بیگانگی کے احساس کی گتھی ایک دم سے سلجھ گئی۔ ایک اندازے کے مطابق ان دنوں ہزارہ کابل شہر کی مجموعی آبادی میں تیس سے چالیس فیصد تک حصہ دار تھے۔ اس کے باوجود انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ سلطان علی کشتمند وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کردیے گئے تھے جبکہ کابینہ میں گنتی کے ایک یا دو ہی وزرا یا نائب وزرا شامل تھے جن کے سروں پر تبعیض کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی تھی اور جنہیں ہر دم برطرفی کا خدشہ لاحق رہتا تھا۔ تحقیر اور توہین اتنی عام تھی کہ عام ہزارہ اپنے آپ کو ہزارہ کہلوانے کے بجائے تاجک کہلوانے پر زیادہ اطمینان محسوس کرتے تھے۔ حتیٰ کہ بعض نامور ہزارہ شخصیات نے بھی اپنے شناختی دستاویزات پر اپنی قومیت کے خانے میں تاجک درج کروا رکھا تھا۔ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ہزارہ طلبا کے ساتھ مسلسل تحقیر آمیز سلوک کیا جاتا تھا۔ ہم جماعت لڑکیاں ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتی تھیں اور استاد انہیں ہزارہ ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ کابل میں ہمارا دوست بننے والے ایک ہزارہ ڈاکٹر نجیب نے دوستوں کی فرمائش پر متعدد بار ایک واقعہ سنایا کہ میڈیکل کی تعلیم کے دوران ایک دن میری ایک کلاس فیلو (جس کے ساتھ میری اکثر گپ شپ ہوا کرتی تھی) مجھے ایک طرف لے گئی اور پریشان لہجے میں کہنے لگی
“ڈاکٹر میں نے تمہارے بارے میں ایک بہت ہی بری بات سنی ہے، اللہ کرے کہ جھوٹ ہو!” میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ بھئی کون سی بری بات سنی ہے؟ کہنے لگی
“مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے بتاؤں۔ اللہ نہ کرے کہ یہ بات سچ ہو، اللہ نہ کرے” میں نے کہا کہ بتاؤ تو سہی کہ آخر تم نے میرے بارے میں ایسا سنا کیا ہے؟ وہ پھر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہنے لگی
“اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو اور اللہ کرے کہ یہ جھوٹ ہو لیکن میں نے سنا ہے کہ تم ہزارہ ہو!”
مجھے یاد ہے کہ جب ڈاکٹرنجیب یہ “لطیفہ” سنا رہا ہوتا تو قہقہوں کے ساتھ میرے اندر سے چیخیں اور سسکیاں بھی نکل رہی ہوتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض یادیں تلخیاں بن کر میری رگ رگ بلکہ ہڈیوں تک میں سرایت کر گئی ہیں۔ میں نے کابل میں صرف ایک ہی طبقہ دیکھا جسے اپنے ہزارہ ہونے سے انکار نہیں تھا اور وہ طبقہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور کندھوں پر رسہ لٹکائے سامان ڈھونے والے انتہائی غریب افراد کا تھا جنہیں عرف عام میں “جوالی” کہا جاتا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ ان جوالیوں کے پاس اپنا رسہ اور بدن پر پڑے چھیتڑوں کے علاوہ کھونے کو کچھ اور تھا بھی نہیں۔
آج جب میں بعض آبسقالوں کو ہزارہ گی زبان، تاریخ، ثقافت، موسیقی، رقص، دستکاریوں حتیٰ کہ نام سے بیگانگی اور حقارت کا اظہار کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یقین جانیے کہ مجھے ان پر حیرت نہیں ہوتی بلکہ ان پر رحم آتا ہے۔ یہ واقعی قابل رحم لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بقول شخصے اس بات کا یقین دلانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے کہ اب یہ غلام نہیں رہے۔ انہیں وہ زبان پسماندہ اور کڑوی لگتی ہے جس زبان میں ان کی ماؤں نے انہیں گود میں لٹا کر لوریاں سنائیں۔ اس لئے یہ کسی “میٹھی” زبان میں بات کرکے اور اپنی ماں بولی کا مذاق اڑاکر سکون محسوس کرتے ہیں۔ انہیں اپنے لباس سے نفرت ہے اس لئے دوسروں کا لباس زیب تن کرکے ان کی گردنیں فخر سے تن جاتی ہیں۔ انہیں اپنی کلاہ سے نفرت ہے اس لئے نہ صرف خود دوسروں کی کلاہ برداری میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے سروں پر بھی ایسی کلاہ گزاریوں سے باز نہیں آتے۔ دوسروں کے ڈھول کی تھاپ پرآنکھ بند کر کے رقص کرتے ہوئے یہ دنیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں لیکن اپنا رقص انہیں مجرا لگتا ہے۔ ان کو ہر اس چیز سے نفرت ہے جو انہیں ان کے ہونے کا احساس دلائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہر اس شے سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں جو ان کو آزادی اور برابری سے روشناس کرا سکے۔ مجھے اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ اگر پلاسٹک سرجری سستی ہوتی تو یہ سب سے پہلے اپنے چہرے اور نین نقوش سے چھٹکارا حاصل کرلیتے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ جو شخص اپنے آپ سے پیار نہیں کرتا دوسروں سے پیار کرنے کا اس کا دعویٰ محض ایک ڈھونگ اور ایک ڈھکوسلہ ہے۔
ہزارہ قوم سمیت ہر اس شخص کو ہزارہ کلچر ڈے مبارک ہو جو ثقافتوں کی رنگارنگی اور بردبار معاشرے کے وجود سے پیار کرتا ہے۔

حسن رضا چنگیزی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *