لیڈرشپ اور ہماری اجتماعی قومی ذمہ داریاں ۔۔۔ میر افضل خان طوری

لیڈرشپ اور ہماری اجتماعی قومی ذمہ داریاں

 تحریر: میر افضل خان طوری

مملکت پاکستان کو آزاد اور خودمختار ملک بنانے کےلئے بہترین لیڈرز کا انتخاب کرنا ضروری ہے۔ لیڈر دولت کا شکاری نہیں ہوتا۔  وہ عوام کے قلب و نظر کو شکار کرتا ہے۔لیڈر بڑے بڑے بنگلوں اور گاڑیوں کو مسخر نہیں کرتا بلکہ لیڈر انسانوں کے دلوں کو مسخر کرتا ہے۔ ہمیں ایسے لیڈرز کا انتخاب کرنا ہوگا جو استحصالی قوتوں کو شکست دینے کیلئے قوم کی رہنمائی کے قابل ہوں۔

قوم کو خطرات سے ڈرانے کی بجائے ان کو خطرات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیں۔ جو لیڈر قوم کو ڈراتا ہو وہ لیڈر نہیں ہوسکتا۔ وہ گیدڑوں کا سر پنج ہے ۔ لیڈر شپ عوام کو جوڑتی ہے۔ لیڈر عوام میں نئی امنگ پیدا کرتا ہے۔ لیڈر لوگوں کے احیائے فکر کو نئی رفعتوں پر مرتکذ کرکے ان کو مقررہ ہدف حاصل کرنے کا جذبہ فرہم کرتا ہے۔ لیڈر مثبت سوچ کا پیمبر ہوتا ہے وہ اپنی قوم میں مثبت سوچ کی روح پھونک دیتا ہے۔ منفی سوچ اور رویوں سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ قومیں ہمیشہ مثبت سوچ کے ذریعے پروان چڑھتی ہیں ۔ ہمیں ایسے لیڈرز کا انتخاب کرنا ہوگا جو سب سے زیادہ توانائی تعلیم پر صرف کرنے کا ہنر جانتا ہو۔  کیوں کہ تعلیم ہی دنیا کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیمی بد حالی اور بد انتظامی سب کے سامنے ہے۔

نا اہل لیڈرز نے سب سے بڑا نقصان نظام تعلیم کو پہنچایا ہے۔ ملک کی ترقی کا سب سے اہم ستون تعلیم ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی ہمارے ملک کے تمام دیگر شعبے ترقی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمران تعلیم پر سب سے کم توجہ دے رہے ہیں۔آج تک جن قوموں نے دنیا میں اپنا مقام پیدا کیا ہے ان کی تعلیمی شرح 90% سے اوپر ہے۔ ہم تعلیم پر سب سے کم بجٹ خرچ کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے ہمارے ملک کی کوئی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کے ٹاپ 100 یونیورسٹیوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ ہمارا نمبر تو 600 کے بعد آتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی غیر زمہ داری کا سب سے واضح ثبوت ہے۔

یورپ آج اس لیے تعلیم میں آگے ہے کہ چرچل اور ہٹلر جیسے لیڈرز نے جنگ عظیم دوم میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ملکوں میں موجود تعلیمی اداروں کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ تعلیمی درس گاہ اس زمانے میں جائے پناہ سمجھی جاتی تھی۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر پورا یورپ تباہ بھی ہوجاتا ہے مگر ان یونیورسٹیوں کیوجہ سے وہ دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کا دارومدار ہمیشہ بیرونی امداد پر رہتا ہے اگر وہ امداد ہمیں نہیں ملتی ہے تو ہمارے تمام فیصلے ، پالیسیاں اور خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے کبھی اپنے ملک کے بیشمار دریاوں پر ڈیم بنانے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔

ہمارا میڈیا ڈیموں کی تعمیر پر بحث کرنے اور ڈیموں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بجائے غیر ضروری مسائل پر بحث کر رہا ہے۔ ہم دن رات اپنے دفاعی بجٹ کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ ہم نے یہ کبھی بھی نہیں سوچا کہ ہمیں کتنے خطرناک دشمنوں کا سامنا ہے۔ جس پاکستان کے پاس قائداعظم محمد علی جناح کو سلامی دینے کیلئے کراچی میں توپ کے گولے تک نہیں تھے اسی پاکستان کئ فوج آج دنیا کی چھٹی بڑی طاقت بن چکی ہے۔ آج ہم فوجی لحاظ سے دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کی صف میں کھڑے ہیں ۔ ہمیں اپنے دفاع کو نا قابل شکست بنانے کی ضرورت ہے۔ فوج میں بھی کرپشن ہوگی مگر اتنی ہرگز بھی نہیں ہے جتنا سول اداروں میں موجود ہے۔ فوج کے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ جو لوگ فوجی بجٹ پر دن رات رو رہے ہیں ان کو چاہئے کہ پاکستان میں موجود بیش بہا معدنی وسائل کو بڑھانے کی بات کریں۔ پاکستان کئ آمدنی میں کئی گنا اضافہ کرنے کی بات کریں۔

ہم اگر چاہیں تو اس ملک کے تمام بنیادی وسائل کو بروئے کار لا کر ہر شعبے کے بجٹ میں حیرت انگیز اضافہ کر سکتے ہیں ۔

میر افضل خان طوری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *