قحط …. فدا حسین

قحط 

تحریر: فدا حسین           

مضمون نگار ۔۔ فدا حسین

قحط زدہ علاقے میں زندگی بسر کرنا کسی چیلنج سے ہرگزکم نہیں کیونکہ جن ستونوں پر انسانی زندگی کھڑی رہتی ہے ان میں سے ایک کے نہ ہونے سے زندگی ڈگمگا جاتی ہے۔عموماً خوراک اور پانی کی کمی کو قحط کہا جاتا ہے۔ ہمارے صوبے کو بھی قحط سالی کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا رہا ہےاور شاید اب بھی بعض علاقوں میں مشکلات ہوں گی۔مگر اللہ کی کرم نوازیوں سے یہ نیا سال موسم کے حوالے سے کافی نیک ثابت ہوا ہے۔ بارشوں اور برفباری کی وجہ سے قحط کا خطرہ اگر مکمل طور پرختم نہیں ہواتو کمزور ضرور پڑ گیا ہے اور اگر خوشگوار موسم کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب قحط سالی سے مکمل نجات حاصل ہوجائےگی۔

بارشوں کے نہ ہونے سے قحط کا پڑ جانا قدرتی فعل ہے ( البتہ ماحولیاتی تبدیلی کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے) لیکن انسانی معاشرے میں پانی اور خوراک کی کمی کے علاوہ باقی چیزوں کا بھی قحط ہے۔ ہم میں اجتماعی سوچ کا قحط ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔ اگر کشتی میں سوراخ ہوتا ہے تو کوئی بچ نہیں پائے گا اور سب ڈوب جائیں گے۔ اچھے رویوں، رواداری اور بھائی چارگی کے قحط نے ہمیں تنہا کر دیا ہے۔ ہمارے اپنے معاشرے میں بھی اچھے رویوں کا قحط پڑا ہواہے صرف دو الفاظ “معاف کیجئے” ہمیں بہت بھاری پڑتے ہیں جنہیں ہم ادا ہی نہیں کر سکتے۔ منشیات، جوئے کے اڈے اور دیگر منفی سرگرمیاں عروج پر ہیں جب کہ مثبت و تعمیری سرگرمیوں کا قحط پڑاہے۔ معیار اور معیاری اشیاء کا بھی قحط ہے بلکہ تقریبا ہر شعبہ زندگی میں کسی قسم کا کوئی معیار متعین ہی نہیں۔ معیاری تعلیم، معیاری خوراک، معیاری ادویات و دیگر ضروریات  زندگی کا قحط ہے۔ پہلے بمشکل کسی اخبار میں ہمارے معاشرے کے حوالے سے قتل و غارت کی کوئی خبر ملتی تھی مگر اب برداشت کے قحط کی وجہ سے ایک دن میں قتل کی متعددخبریں ملتی ہیں۔ تربیت کے قحط کے باعث والدین اپنے بچوں کے لئے محض فرمائشیں پوری کرنے والے اور اے ٹی ایم مشین بنے ہوئے ہیں اور جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو تب عقل آتی ہے مگر تب آہیں بھرنے اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔

پیارومحبت اعتبار اور بھروسے کے قحط نے معاشرے کو بگاڑکر نفرت کی تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اتنی زندگیاں نہیں بستی جتنی اجاڑ دی جاتی ہیں لہٰذا زندگی سے اتنی شدید نفرت ہو جاتی ہے کہ موت کو خوشی خوشی گلے لگایا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اس لیے کہ ہمیں سچ اور سچائی سے ڈر لگتا ہے۔ ہمیں ڈر لھتا ہے کہ کہیں سچ بولنے سے نقصان نہ اٹھانا پڑے یا کہیں ہماری بےعزتی نہ ہو۔ اس لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر کوئی سچ بول بھی لے تو سچ کے قحط کی وجہ سے اسے ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے اور اداروں میں انصاف کے قحط کی وجہ سے عدم اعتماد پروان چڑھا ہے اور اعتماد مفقود ہو چکا ہے۔ اس لیے ہم کسی پر اعتماد کرنے سے کتراتے ہیں۔ ناانصافیوں سے معاشرے کا توازن بگڑا ہوا ہے اس کے ہونے سے بدلے کی بو آتی ہے پھر لوگ اپنے لیے خود قانون بنا لیتے ہیں۔ جس معاشرے میں ناانصافی ہو وہاں ایمانداری کا بھی قحط پڑجاتا ہے اور ایماندار لوگ انگلیوں پر شمار کیے جا سکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں اشرف المخلوقات خلق کیا ہے ہمیں عقل و شعور کی بنیاد  پر دوسری مخلوقات پر شرف حاصل ہے مگر ہمارے معاشرے میں عقل و شعور کا بھی قحط ہے۔ ہم نہ اپنے مفادات کا سوچتے ہیں اور نہ ہی نفع نقصان کا۔ کوئی بھی ہمیں اپنے بہکاوے میں لا سکتا ہے اور ہمارے کندھے پر بندوق رکھ کے چلا لیتا ہے۔ مستقبل کا تو کسی کو معلوم نہیں اپنے حال کے لئے بھی فکر مند نہیں۔ غلط اور صحیح کا ہمیں ادراک نہیں جو کوئی ہاتھ پکڑ لے بس اسی کے ہمراہ چل دیتے ہیں یہ نہیں پوچھتے کہ جانا کہاں ہے اور کیوں جا رہے ہیں!؟۔ اور بھی کئی چیزوں کا ہمارے معاشرے میں قحط پڑا ہواہے اور یہ تمام قحط قدرت سے جڑے ہوئے نہیں کہ ہم اس کے انتظار میں بیٹھے رہے کہ وہ کب ہم پر رحم و کرم فرمائے اور قحط ختم ہو بلکہ یہ ہم سے ہی وابستہ ہیں۔ اگر ان تمام قحطوں کو ختم یا کم کرنا ہے تو ہمیں ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ڈالنی ہوگی اور ان تمام عوامل پر من و عن عمل کرنا ہوگاجس سے ان تمام قحطوں  کا خاتمہ ہو اور چاروں طرف شادابی اور ہریالی ہو۔

فدا حسین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *